Tayyab Mumtaz

عدالت ِ عظمیٰ میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش

پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پیر کو اپنی چوتھی اور حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ کی سکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی ۔ایک پولیس افسر کے مطابق عموماً پولیس کے100اہلکار سپریم کورٹ کی سکیورٹی پر مامور ہوتے ہیں لیکن پیر کو500اہلکاروں کو تعینات کیاگیاتھا ۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ غیر متعلقہ افراد کو سپریم کورٹ جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ کیس کیس ماعت کافیصلہ سناتے ہوئے20اپریل کو مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو10جولائی تک کام مکمل کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی ۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ آسمان گرے یا زمین پھٹے، جے آئی ٹی دی گئی مدت کے دوران ہی کام مکمل کرے گی اور اس کی مدت میں اضافہ نہیں کیا جائے گا ۔ عدالت نے جے آئی ٹی کو 13سوالات کے جواب تلاش کرنے کاحکم دیاتھا ۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے62دن بلا ناغہ کام کرکے اپنی ر پورٹ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی عملدرآمد بنچ کو جمع کرادی ہے ۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں6رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تقریباً60روز کے اندر تحقیقات مکمل کرلی جس کے دوران شریف خاندان کے8افراد اور مجموعی طور پر23افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ۔ عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت پیر17جولائی تک ملتوی کردی ہے ۔
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ بنچ نے حکم دیا کہ جے آئی ٹی میں شامل مختلف اداروں کے ارکان کے خلاف حکومت کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کرے گی ۔ وہ آزادی سے اپنا کام کریں گے تاوقتیکہ حکمران عدالت سے اجازت نہ لے لیں ۔ 3رکنی بنچ نے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ وہ فریقین اور مدعا علیہان کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کی10جلدوں میں سے9جلدوں کی نقول فراہم کردیں اور ان جلدوں کو پبلک کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ۔ جج صاحبان نے فریقین کے وکیلوں کو ہدایت کی کہ وہ یہ نقول رجسٹرار آفس سے حاصل کرلیں ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ آصف سعید کرمانی، طلال چودھری، خواجہ سعد رفیق اور دانیال عزیز کے آڈیو ویڈیو بیانات کی ٹرانسکرپشن عدالت کو مہیا کی جائیں ۔ سپریم کورٹ کے پانامہ عملدرآمد کیس کے بنچ نے حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے شحص کا نام سامنے لانے کا حکم دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے تصویر لیک کے معاملے پر وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی کمیشن بنانے کی درخواست نمٹا دی ۔ اس موقع پر عملدرآمد بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے حکم دیا کہ ”حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے شخص کا نام سامنے لایا جائے “۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا کہ اگر حکومت تصویر لیک کے معاملے پر کمیشن بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو بنا لے ، تصویر لیک پر کمیشن عدالتی دائرہ کار سے باہر ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ تصویر لیک کا ذمے دار اور نام عام کرنے کا اختیار وفاق کو دیا گیا ہے ، حکومت عدالتی کندھا استعمال نہ کرے ، عدالت نے جے آئی ٹی سے متعلق چھپنے والی خبروں کانوٹس لیتے ہوئے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان، پبلشر میرجاوید رحمان اور صحافی احمد نورانی کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردئیے جبکہ اخبار کے پبلشر اور پرنٹر کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیاگیا ۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے اس حوالے سے سات روز کے اندر وضاحت طلب کی ہے ۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ ریکارڈ ٹیمپرنگ کا کیابنا؟ اس موقع پر اٹارنی جنرل اور چیئرمین ایس ای سی پی کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کو ذمہ دار قرار دے دیا ہے ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ ایف آئی اے نے ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بھی سفارش کی ہے ۔ اس موقع پر چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے وکیل نے عدالت کے روبرو اعتراف کیا کہ دستاویزات میں ٹمپرنگ ہوئی ہے تاہم یہ ٹمپرنگ دس ماہ پہلے کی گئی تھی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ظفر حجازی نے ماتحت افسران پر دباﺅ ڈالا اور دھمکیاں دی جب کہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ظفر حجاز ی نے کس کے کہنے پر ٹمپرنگ کی ۔ خیال رہے کہ ایف آئی اے نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجاز کو شریف خاندان کی چودھری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ردوبدل کا ذمہ دار قرار دیاتھا ۔ عدالت نے ریکارڈ ٹمپرنگ پر ظفر حجازی کے خلاف آج ہی مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کیے ۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے سے قبل فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں اس کا مکمل جائزہ لیا اس موقع پر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی سکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی تھی ۔ جے آئی ٹی کے ارکان سخت سکیورٹی میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے سپریم کورٹ پہنچے ۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو سربہمر ڈبوں میں سپریم کورٹ لایاگیا اور ڈبے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاءکی گاڑی میں رکھے گئے تھے ۔ تشکیل دی جانے والیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاءنے کی ۔ سماعت سے قبل جے آئی ٹی کی رپورٹ سر بمہر ڈبوں میں لائے جانے کے بعد وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے ڈبوں کی تصاویر کے ساتھ ٹوئٹ کی ۔ مریم نواز کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ شریف فیملی پر ثبوت نہ دینے کے الزام لگانے والے آج سپریم کورٹ میں شریف فیملی کے کاروبار کی1960ءسے اب تک کے ثبوتوں کی ٹرالی دیکھ لیں ۔ جے آئی ٹی نے مجموعی طور پر62دن کام کیا اور اس دوران و زیراعظم نواز شریف ، ان کے دو بیٹوں حسن ، حسین نواز ، صاحبزادی مریم نواز اور بھائی شہباز شریف سمیت شریف خاندان کے دیگر اہم افراد کے بیانات قلمبند کیے ۔ جے آئی ٹی نے اپنی پہلی پیشرفت رپورٹ 22مئی کو سپریم کورٹ کے عملدرآمد بنچ کو جمع کرائی تھی ۔ دوسری پیشرفت رپورٹ7جون اور تیسری22جون کو جمع کرائی گئی جب کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی چوتھی اور حتمی رپورٹ پیر کو پیش کی ۔ ٹیم نے شہبازشریف اور وزیراعظم نواز شریف کے قریبی عزیز طارق شفیع ، جاوید کیانی ، وزیراعظم سمدھی ووزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے کلاس فیلو اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد چمن کے بیانات بھی لیے ۔ جے آئی ٹی نے تحقیقات کے دوران چیئرمین نیب قمر زمان چودھری کا بھی حدیبیہ پیپر ملز کیس کے بارے بیان قلمبند کیا ۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر بشارت شہزاد اور جاتی امرا پراپرٹی کی تحقیقات کرنے والے سابق ایف آئی اے افسر جاوید علی شاہ سے بھی کیس کا پس منظر جانا ۔ جے آئی ٹی نے کیس کی تحقیقات کے لیے قطری شہزادے حمد بن جاسم کو بھی خطوط لکھے ، جنہوں نے خطوط کے جواب میں ٹیم کو اپنے محل آنے کی دعوت دی تاہم قطر کے سابق وزیراعظم کسی بھی قسم کی تفتیش میں شامل نہیں ہوئے ۔ دوسری جانب حکومت نے قطری شہزادے کے بیان کے بغیر رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔
حکومتی ترجمان دانیال عزیز نے عدالتی احکامات وہدایات سامنے آنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کی9جلدیں پبلک ہو رہی ہیں تو 10ویں جلد کو کیوں صیغہ¿ راز میں رکھا جارہا ہے ۔ ان کا سوال بجا مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس امر کا غالب امکان ہے کہ اس عدالتی اقدام کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی حکمت یا مصلحت ضرور ہو گی ۔ بہتر ہوتا کہ اس بارے بتا دیا جاتا کہ شہری وعوامی حلقوں میں بے جا سوالات پیدا نہ ہوتے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button