خطرناک منصوبہ پاکستان چوکنا ہو
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر کی جانب سے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کو نجی سکیورٹی ٹھیکیداروں سے تبدیل کرنے پر غور کیا جارہا ہے ۔ دیگر میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کے خصوصی مشیر ہر اس ممکنہ راستے پر غور وفکر کرنے میں مصروف ہیں جس کے ذریعے افغانستان میں نجی سکیورٹی ٹھیکیداروں کو تعینات کیا جاسکے، امریکی صدر کے دو مشیروں نے ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر ارکان کے ساتھ اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کی ، جن میں امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنز بھی شامل تھے، جیرڈ کشن اور اسٹیفن بینون نے 2نجی دفاعی کمپنیوں کے ٹھیکیداروں کو بھرتی کیا ہے جس کا مقصد افغانستان میں امریکا کے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرنا ہے ۔ رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ ایک اور اہم مشیر اسٹیفن بینون نے امریکی د فاع وزیر دفاع جیمز میٹس سے پینٹا گون میں اس معاملے کے حل کے لیے تفصیلی گفتگو کرنے کی کوشش کی تاہم وزیر دفاع نے افغانستان کی پالیسی پر بیرونی حکمت عملی کو لاگو کرنے سے انکار کردیا۔ دوسری جانب امریکی جنرلز کا کہنا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں طالبان اور دوسرے شدت پسندوں کو شکست دینے کے لیے معقول حد تک کابل میں اپنی فوج کی تعداد بڑھانی ہو گی اگر امریکا فتح کا خواہش مند ہے تو اسے افغانستان میں اپنی فوج میں مزید اضافہ کرناہوگا ۔ بتایا جارہا ہے کہ افغانستان میں جاری طوریل امریکی جنگ پر پینٹا گون اور وائٹ ہاﺅس ایک دوسرے سے خوش اور مطمئن نظر نہیں آتے بلکہ دونوں اداروں میں فاصلہ بڑھتا جارہا ہے ۔ خیال رہے کہ نیویارک ٹائمز اور دیگر امریکی اخبارات کے مطابق تنقید کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں صدرڈ ونلڈ ٹرمپ کے اہم جنرلز اور ان کے مشیروں کے درمیان فاصلہ قائم ہوسکتاہے جس کے نتائج خطرناک ہوں گے ۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ امریکی جنگ میں نجی فوجیوں پر کروڑوں ڈالرز خرچ کرنے کے خیال کے پیچھے صرف دو افراد تھے ان میں سے ایک ایرک پرنس ہیں جنہوںنے بلیک واٹر کی بنیاد رکھی اور یہ نجی سکیورٹی تنظیم پاکستان میں بھی خاصی سرگرم رہی ۔ کون نہیں جاتنا کہ 2011ءمیں پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے والا امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس بھی ایک سکیورٹی کنٹریکٹرز ہی تھا جو پاکستان اور افغانستان د ونو ںممالک میں مختلف سرگرمیاں انجام د ے رہا تھا ۔ اس معاملے میں شامل دوسرے فرد اسٹیفن فنبرگ ہیں جو ایک اور نجی سکیورٹی کمپنی ڈینکور اپ انٹرنیشنل کے معاونین میں شامل ہیں ۔ واضح رہے اس تنظیم نے بھی افغانستان میں جاسوسی کے لیے امریکا کی بھرپور مدد کی تھی ۔ ارباب خبرونظر جانتے ہیں کہ 13نومبر 2014ءکو ایرانی نشریاتی ادارے نے بتایا تھا کہ بلوچستان میں حالات کی خرابی کی ذمہ دار امریکی بلیک واٹر ہے ۔ بلوچستان میں پیرا ملٹری فورسز کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں یہ انکشافات کئے گئے کہ ایک نجی امریکی کمپنی بلیک واٹر ہمسایہ ملک افغانستان میں کارروئی کررہی ہے اور وہی بلوچستان کی بدامنی میں ملوث ہے ۔ وہ صوبے میں ملک دشمن عناصر کی حمایت کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ 2016ءمیں کانگریشنل ریسرچ سروس کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایاگیاتھا کہ 2007ءمیں عراق اور افغانستان میں امریکی وزارت دفاع نے صرف نجی ٹھیکیداروں پر220ارب ڈالرز خرچ کیے ۔ خیال رہے کہ 26مارچ2017ءمیں عراق اور افغانستان میں امریکی وزارت دفاع نے صرف نجی ٹھیکیداروں پر220ارب ڈالرز خرچ کیے ۔ خیال ر ہے کہ 26مارچ2017ءکو ایک پروگرام میں جنرل(ر) مصطفےٰ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ 2009ءمیں سرکاری طور پر ان دنوں حکومت نے اسلام آباد میں274گھر بلیک واٹر ایجنٹوں کے لیے کرائے پر حاصل کیے تھے اور سی آئی اے کے مشکوک اور خطرناک ایجنٹ بڑے دھڑلے سے اسلام آباد ائیر پورٹ کے وی آئی پیز لاﺅنج سے بغیر ایمیگریشن آتے اور اپنے کام میں لگ جاتے تھے ، صورتحال اتنی سنگین تھی کہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کی طرف سے حکومت کو یکے بعد دیگرے تین خطوط لکھ کر ایجنٹوں کے ناموں سمیت پیش کی گئے اور درخواست کی گئی کہ ان کے خلاف کارروائی کی اجازت دی جائے اور ان کا داخلہ بند کیا جائے ۔ چونکہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا اس لیے اسے در خور اعتناءہی نہیں سمجھا گیا ۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ جمعرات کو پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے دہشت گردی سے متعلق عالمی ر پورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی گئی ہے ، محکمہ خارجہ کی رپورٹ برائے2016ءمیں پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے لیے خطرہ تصور کی جانے والی دہشت گرد تنظیموں بشمول حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میںمحفوظ پناہ گاہیں ہیں، پاکستان میںفوج اور سکیورٹی فورسز نے تحریک طالبان سمیت ان دہشت گردتنظیموں کے خلاف کارروائی کی جو پاکستان میں حملوںمیں ملوث ہیں۔ پاکستانی وزارت خراجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اس رپورٹ کے بارے میں ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر عزم ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے، پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف موثر کارروائیاں کیں جسے بہت سے ممالک بشمول امریکا کی طرف سے سراہا بھی گیا ہے ۔ پا کستان دہشت گرد میں تفریق نہیں کرتا تاہم تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں ۔ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے سبب بہت سے شدت پسند افغانستان فرار ہو گئے ہیں ۔ افغانستان گزشتہ لگ بھگ40سال سے افراتفری کا شکار ہے ۔ دہشت گردوں کو افغانستان کے ان علاقوں میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملتاہے جہاں کابل حکومت کی عملداری نہیں ہے ، افغانستان مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ۔ پاکستان، افغانستان میں امن اور مفاہمت کے قیام کے لیے اپنا کردار جاری رکھے گا ، ادھر چین کے معروف سرکاری روزنامہ گلوبل ٹا ئمز کی ر پورٹ کے مطابق امریکا خطے کو ایک مرتبہ پھر متزلزل کرناچاہتاہے ،ا مریکا کی افغانستان بارے حکمت عملی نے خطے کی سکیورٹی صورتحال خراب کردی ہے ۔ امریکا حکی حکمت عملی میں منصوبہ کا فقدان نظر آتا ہے ۔ امریکا افغانستان کے مسائل کے حل کی بجائے صرف اپنے خفیہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی د یتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان میں ایک دہائی سے زیادہ غیر ملکی افواج ، افغانوں کی حفاظت نہیں کرسکتی ۔ امریکا کی نئی حکمت عملی سے خطہ مزید مشکلات کا شکار ہو گا ۔ افغانستان میں بڑے پیمانے پر دہشت گرد حملے امریکا کے زیرانتظام افواج کی موجودگی پر سوالیہ نشان ہیں ۔ افغانستان کے موجودہ مسائل کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں دکھائی د یتی، امریکی پالیسیاں افغانوں کے موجودہ مسائل کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں دکھائی د یتی ۔ امریکی پالیسیاں افغانوں کے مصائب کم کرنے میںناکام رہی ہیں ۔
امر انتہائی تشویشناک ہے کہ امریکی وزیر دفاع جیمز مٹس اور چیف آف سٹاف سمیت دیگر عسکری ذمہ داران بھی اس امر پر سنجیدگیس ے غور کررہے ہیں کہ آئندہ افغانستان میں مزید امریکی افواج بھیجنے کے بجائے پرائیویٹ جنگجو بھیجے جائیں۔ واضح رہے کہ دو سال قبل وائٹ ہاﺅس کی جانب سے بتایاگیا تھا کہ جولائی کے مہینے میں امریکی صدر افغانستان کے حوالے سے نئی پالیسی وضع کریں گے ۔ اس وقت ہر گز یہ ظاہر نہیں کیاگیاتھا کہ پیشہ ور اجرتی قاتلوں کو نجی سکیورٹی ٹھیکیداروں کی آڑ میں افغانستان بھیجا جائے گا۔ وائٹ ہاﺅس کے زیر غور یہ تجویز اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ امریکی تسلیم کرچکے ہیں کہ 16سالہ طویل جنگ کے باوجود ان کی افواج افغانستان میں صورتحال پرقابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔ پرائیویٹ سکیورٹی کنٹریکٹرز عراق اور دیگر ممالک میں جہاں بھی بھیجے گئے ہیں وہاں صورتحال امریکا اور مقامی آبادی کے لیے زیادہ وحشت ناک اوربھیانک ہوئی ہے ۔ ابھی تک یہ نہیں بتایاگیا کہ بلیک واٹر یا کسی قسم کی د وسری نجی سکیورٹی کمپنی کے کتنے کنٹریکٹرز کوا فغانستان بھیجا جائے گا۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ وہ امریکا جو دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ کا چمپئن بننے کا دعویٰ کرتاہے اپنے مقبوضہ اور مفتوحہ علاقوں میں پہلے تو بھاری بھرکم فوج بھیج کر عام شہریوں کا قتل عام کرتا ہے اور اب افغانستان میںنہتے افغانوں کے مزید قتل عام کے لیے انہوں نے پرائیویٹ اجرتی قاتلوں کے جتے بھیجنے پر غور شروع کردیا ہے ۔ یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان پرائیویٹ سکیورٹی کنٹریکٹرز کی افغانستان میں کارروائیوں سے ایک ایسی خونریزی شروع ہوئی ہے تو اسے نہ تو باقاعدہ جنگ قرار دیا جائے گا نہ ہی خانہ جنگی ۔ اندریں حالات کہ وہاں پہلے ہی 65بھارتی قونصل خانے را کے ایجنٹ کو افغان مزاحمت کاروں کے خلاف سرگرم عمل ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبالی صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقوں بلوچستان، کراچی اور جنوبی پنجاب میں دہشت گردی کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہےں کہ امریکا خطے میں اجرتی قاتلوں کے جتھے بھیج کر مزید عدم استحکام پیدا کرناچاہتا ہے تاکہ سی پیک منصوبے کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جاسکیں ۔حکومت پاکستان کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے اور متوقع معروض کی روشنی میں حکمت عملی و ضع کرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے ۔ قوی خدشہ ہے کہ یہ اجرتی قاتل ہماری سرحدوں پر بھی خطرات پیدا کریں گے ۔ اس تناظر میں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ اداروں کو ذمہ داران کو زیادہ چوکسی، مستعدی اور ہوشیاری وبیداری سے منظر نامے پر نگاہ رکھنا ہوگی ۔