پاکستان کے منتخب وزراءاعظم اور ان کا انجام جمہوریت!!!
1۔ لیاقت علی خان (قتل)
2۔ خواجہ ناظم الدین( برطرف۔)
3۔ محمد علی بوگرہ (زبردستی استعفی)۔
4۔ چودھری محمد علی (استعفی لیا گیا)
5۔ حسین شہید سہروردی۔(مستعفی)
6۔ آئی آئی چندریگر (مستعفی)
7۔ فیروز خان نون(تختہ الٹ دیا گیا )
8۔ ذولفقار علی بھٹو ( تختہ الٹ دیا گیا اور پھانسی)
9۔ محمد خان جونیجو (برطرف)
10۔ بے نظیر بھٹو ( برطرف)
11۔ نواز شریف( برطرف پھر بحال پھر زبردستی استعفی)
12۔ بے نظیر بھٹو ( برطرف ) بعد ازاں قتل
13 نواز شریف (تختہ الٹ دیا گیا اور جلا وطن)
14۔ ظفراللہ جمالی ( استعفی لیا گیا)
15۔ شوکت عزیز ( گمشدہ تلاش جاری ہے )
16 یوسف رضا گیلانی ( عدالتی برطرفی)
17۔ نواز شریف۔ (عدالتی نااہل)
معاملہ پانامہ سے چلا اور اقامہ پر ختم ہوگیا۔ لوگوں نے کہا کہ نوازشریف کو پانامہ اور اقامہ لے ڈوبا، سال سوا سال کس بات پر تحقیقات کی گئی۔ بیٹوں کی آف شور کمپنیاں، کروڑوں کے تحائف، 70 سال کے کاروبار کی منی ٹریل، دستاویزات کے ڈھیر، ٹرالی میں تحقیقاتی رپورٹیں، ثابت کیا ہوا؟ وزیراعظم تاحیال نااہل، 28 جولائی کو نوازشریفی صبح اٹھے تو وزیراعظم تھے۔ جمعہ کی نماز پڑھنے گئے تو سابق ہوگئے۔ سیاست کے کھیل ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کی تھی۔ کتنے موڑ آئے۔ سارے غور طلب، لیکن اب فضول، کیس کی ٹریل پر نظر ڈالیں، سابق چیف جسٹس نے کمیشن بنانے کے وزیراعظم کے خط کا جواب دے دیا تھا۔ رجسٹرار نے عمران خان کی درخواست کو لغو قرار دیا۔ 184 (3) کے تحت پہلے انکار پھر اقرار۔ درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو ایسی باقاعدگی کہ روزانہ سماعت، اندر سماعت باہر متحارب پارٹیوں کی اپنی اپنی عدالت، میدان جنگ کا سماں، ہاتھا پائی کی نوبت، نعروں کی گونج، پارٹیوں کو ہلا گلا کرنے سے منع کیا جاسکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا۔ بربادی کا جشن جاری رہا۔ پٹیشن کی منظوری کو ”عوام کا دباﺅ“ قرار دیا گیا۔ توہین عدالت تھی لیکن بقول بابر اعوان ”نوٹس ملیا نہ ککھ ہلیا“ حوصلے بلند ہوئے۔ اس پر سوشل میڈیا، مخصوص چینل، پروپیگنڈا، تذلیل، تضحیک، آٓنے والا مورخ کہانی کے کتنے موڑ ڈھونڈے گا۔
دو ججوں نے نوازشریف کو گاڈ فادر اور سسیلین مافیا قرار دے کر پہلے مرحلے میں نااہل قرار دے دیا تھا۔ ان دو فاضل ججوں کو حتمی بینچ میں شامل کرکے متفقہ فیصلہ دیا گیا۔ جے آئی ٹی کی طوفانی سفارشات، فائنڈنگز، فیصلہ سے قبل فاضل جج نے اعتراف کیا کہ وزیراعظم پر کرپشن یا عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں۔ کہانی کہاں ختم ہوئی پانامہ کیس پیچھے رہ گیا۔ دبئی کی کسی کمپنی کا اقامہ اور تنخواہ (جو وصول نہیں کی گئی) ظاہر نہ کرنا کہانی کا اختتامی موڑ ثابت ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم نااہل قرار پائے۔ 5 یا 10 سال سال کیلئے نہیں تاحیات نااہلی کا داغ ماتھے پر لگا۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کک نوازشریف کو نام نہاد تنخواہ کے مفروضے پر نااہل کیا گیا۔ اپیل کا حق بھی نہیں۔ آئین کی دفعہ 62 (1) ایف کا مطلب تاحیات نااہلی ہے۔ نوازشریف باقی زندگی اللہ اللہ کرتے گزاریں۔ 67 سال کے ہوگئے۔ ”درجوانی توبہ کردن شیوئہ پیغمبری“ حضرت سعدی کے مشورے پر اب تک عمل نہیں کیا تو کب کرلیں۔ دنیا کافی سنور گئی اب آخرت سنوار لیں۔ عمران خان کو اپنی دنیا سنوارنے دیں۔ قانونی ماہرین عابد منٹو، ایس ایم ظفر، عاصمہ جہانگیر، جسٹس وجیہہ آئین جن کے ہاتھوں بنا۔ قانون جیب میں لئے گھومتے رہے لیکن فیصلہ پر حیران ہوئے۔ کہا کہ فیصلہ میں جن وجوہات کا سہارا لیا گیا وہ کمزور ہیں۔ عابد منٹو کا کہنا تھا کہ اپنی زندگی میں کمزور ترین فیصلہ دیکھا۔ لوگ سوچتے تھے کرپشن یا منی لانڈرنگ میں نااہل ہوں گے لیکن بقول مولانا فضل الرحمن ”پیسہ نہ کمانے کی پاداش میں مارے گئے“۔ تنخواہ وصول نہیں کی لیکن ظاہر نہ کرنا نااہلی کی وجہ بن گیا۔ بقول جاوید ہاشمی، عمران نے تین چار سال پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ نوازشریف کو عدالتوں کے ذریعے نکالوں گا۔ فیصلہ آتے ہی انہوں نے ویسے ہی سجدہ شکر ادا کیا جیسے کرکٹ کے میدان میں سنچری بنانے پر کرتے تھے۔ چھ ماہ پہلے پاکستان نیوز کے انہیں کالموں اور لید سٹوریز شائع کیں اس کے علاوہ گارڈین ریویو نے 2016ءمیں اس فیصلے کی نوید سنا دی تھی۔ غیر ملکی جریدے ”نیوز ویک“ نے صاف لکھ دیا کہ پانامہ لیکس پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کڑی کے سوا کچھ نہیں۔ ساری موشگافیاں، تبصرے بعداز وقت فیصلہ ہوچکا یا فیصلہ آ چکا۔
لوگ کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے، جانے کب ہوں گے لیکن کہانی ختم نہیں ہوئی۔ نیب کو نواز شریف، مریم، حسن، صفدر، اسحاق ڈار کے خلاف چھ ہفتے میں ریفرنس دائر اور عدالت کو چھ ماہ میں فیصلے کا حکم دیا گیا۔ چھ ماہ میں آئندہ انتخابات سر پر ہوں گے۔ انتخابی گہما گہمی شروع بلکہ عروج پر ہوگی۔ اس اثناءمیں سزاﺅں کا اعلان ہوگا۔ عمران خان خوشخبری سنا چکے ہیں کہ اڈیالہ جیل میں نوازشریف کیلئے الگ پورشن اور صفائی ستھرائی ہورہی ہے۔ ریفرنس کے فیصلے کے بعد شریف فیملی مکمل طور کرش کے مرحلے سے دوچار ہوگی۔ اس عرصہ میں شہباز شریف کے خلاف بھی شاید کوئی فیصلہ آ چکا ہوگا۔ باقی کون بچا، کلثوم نواز، لیکن اپنی مسلسل بیماری کے باعث شاید وہ اس سرگرمی اور فعالیت کا مظاہرہ نہ کرسکیں جو مشرف کے ابتدائی دور میں نوازشریف کی گرفتاری کے بعد کیا تھا۔ شریف فیملی میں الیکشن لڑنے کیلئے کوئی نہیں بچے گا۔ پچ صاف ہوگی۔ گڑھے بھر چکے ہوں گے اور کپتان چوکے چھکے لگانے میں آزاد ہوں گے لیکن ٹھہریئے اس افراتفری میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کی آخری پریس کانفرنس کے ایک نکتہ پر غور کرتے جائیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو بدترین بیرونی خطرات لاحق ہیں جن کی اصل نوعیت کا علم دو فوجیوں، میرے اور نوازشریف کے سوا کسی کو نہیں۔ خطرات منڈلانے لگے ہیں، کہانی اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔
بھڑک رہی ہے تعصب کی آگ چاروں طرف
اب اپنے گھر کو نہیں دیس کو بچانا ہے
نوازشریف ناگزیر تھے یا نہیں لیکن اب مضبوط قیادت ملک کے تحفظ، خارجہ پالیسی، بین الاقوامی معاملات اور سب سے بڑھ کر سی پیک کے تحفظ کیلئے ضروری ہوگی، ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے شہباز شریف کو آئندہ وزیراعظم نامزد کردیا۔ کیسے ثابت ہوں گے آنے والا وقت بتائے گا۔ اچھے ایڈمنسٹریٹر لیکن ذرا جذباتی ہیں۔ مائیک وائیک گرا دیتے ہیں۔ وزیراعظم کیلئے خاموش متحمل مزاج اور اردگرد سے باخبر ہونا بڑا ضروری ہوتا ہے۔ نوازشریف بڑی خصوصیات کے حامل لیکن اردگرد سے باخبر نہیں رہتے تھے۔ اپوزیشن کی ساری جماعتوں نے نااہلی کرپشن پر جشن منایا۔ ہدف پورا ہوگیا۔ لڈو بٹوائے گئے اور تقسیم کئے گئے لیکن یہ وقتی خوشی کسی تباہی کا پیش خیمہ تو نہیں ہوگی۔ اس پر سبھی کو غوروفکر کرنا چاہئے۔ عوام کا کیا ہے وہ تو ”ادھر چلیں گے جدھر رہنما چلائے گا“ لیکن رہنماﺅں کو بھی دھیان رکھنا ہوگا کہ کوئی انہیں نہ چلا رہا ہو۔ ویسے ن لیگ کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ نوازشریف کیلئے یہ بات قابل اطمینان ہوگی کہ ان کی پارٹی میں ابھی 1857ءکا غدر نہیں مچا، پارٹی کے تمام لیڈر ابھی تک اپنی جگہ قائم ہیں۔ آزمائے ہوئے ہیں۔ کہیں نہیں جائیں گے۔ اس لئے سیاسی میدان میں ہزیمت قبول کرنے کے بجائے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے خم ٹھونک کر میدان میں آنا ہوگا۔ 2018ءکے انتخابات میں ”عوام کی عدالت“ کیا فیصلہ دیا ہے، اس کا انتظار کرلیا جائے، اس وقت تک کہانی ختم نہیں ہوگی۔