آزادی کی قدر کیجئے!

ایک وقت تھا کہ بر صغیر پاک و ہند پر مسلمان حکمران تھے، مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زائد تک برصغیر پاک وہند پر حکمرانی کی اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت،رفتہ رفتہ مسلمان برصغیر میں دوسری بڑی اکثریت بن گئے۔ لیکن پھر ان کی گرفت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ایسا اس لیے ہوا کہ حکومت نااہل جانشینو ں کے سپرد ہوئی جو آپس میں حکومت حاصل کرنے کے لیے جنگ و جدل میں مصروف ہو گئے ،اس طرح وہ کمزور ہوتے گئے ۔ اس کی وجہ اپنے مقصد سے ہٹ جانا بھی تھی ،آپس میں نا اتفاقی ،دین اسلام سے دوری، عیاشی ،عاقبت نااندیشی وغیرہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد برسراقتدار آنے والے مغل حکمران برائے نام تھے۔ جو نااہل تھے ،آپس میں اقتدار کے لیے جنگیں کرتے رہے۔ بہا در شاہ ظفر مغلیہ سلطنت کا آخری چراغ تھا ۔اس نے کوشش کی لیکن اب وقت گزر گیا تھا ،پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا ،وہ پلٹا ،کسی حد تک جھپٹا لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر انگریزوں کے ہاتھوں قید ہو گیا ۔ رنگون میں کسمپرسی کے عالم میں ابدی نیند سو گےا۔ اس کو نقصان پہنچانے میں غدار بھی پیش پیش تھے ۔ان غداروں نے انگریز سے جاگیریں حاصل کیں۔اس کو دلچسپی سے پڑھا جائے گا کہ جن مسلمانوںنے مسلمانوں سے غداری کی ان کو جاگیریں ملیں جن کی باقیات اب بھی ملک میں موجودہیں ۔ مغلوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد100 سال تک برصغیر کا مسلمان بے کسی ،مجبوری اور لڑکھڑاہٹ کا شکار رہا۔ اس پر زندگی مشکل کر دی گی اور موت آسان ۔برصغیر کے مسلمان اب بیدار ہونا شروع ہوئے ۔ ان کو غلامی میں آزادی کی قدر یاد آئی ،آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی، جن خامیوں، غلطیوں، کوتاہیوں کی وجہ سے آزادی غلامی میں بدلتی ہے ان کو دور کرنے سے آزادی ملتی ہے لیکن اس کے لیے سزا کے طور پر قربانیاں دینا پڑتی ہیں ۔جب برصیغر کے مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی، اتحاد، اتفاق، علم، جدوجہد ، اسلام کی تعلیمات پر عمل شروع ہوا۔یہ تڑپ عارضی نہ تھی، اس دور میں بہت سی آزادی کی تحریکیں اٹھیں ، نظام سے حکومت سے ٹکرائیں کمزور ہونے کی بنا پر دم توڑتی رہیں لیکن سوئے ہوﺅں کو جگانے کا باعث بنتی رہیں ،ٹےپو سلطان کی شہادت سے لے کر علماءکرام کی جدوجہد بہادری تک 1857 ءکی ناکام جنگ آزادی تک ایسی بے شمار تحریکیں اپنی شمع روشن کرتی رہیں ۔اس کے بعد مسلمانوں کو وہ لیڈر ملے جنہوں نے آزادی کے لیے دیرپا منصوبے بنائے جن میں سر سید احمد خان ،مکتبہ دیوبند اور دیگر درجنوں ،تنظیمیں ،ادارے ،جماعتیں،وغیرہ وجود میں آئیں ۔ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ بنی جس کی چھتری تلے آزادی کی جد وجہد شروع ہوئی ۔جو 1947 ءکی کامیاب سعی ءآزادی سے ہمکنار ہوئی ۔یہ آزادی ہمیں یو نہی نہیں مل گئی اور نہ ہی آزادی کوئی ایسی نعمت ہے جو بغیر کوشش کے مل جاتی ہے، نہ ہی اسے کوئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتا ہے اس کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں ،بھولا ہوا سبق ہماری نوجوان نسل کو یاد کروانا ،اس یوم آزادی کا مقصد ہے ۔یہ آزادی ایک نعمت ہے جس کی قدر غلاموں سے پوچھیں ۔ اس لیے پاکستان میں بسنے والوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ آزادی کی قدر کیجئے ۔
پاکستان کو اس وقت قائم ہوئے 70سال ہو گئے ہیں اور جس مقصد کے لئے پاکستان حاصل کیا گےا وہ مقصدہماری موجودہ نسل بھول چکی ہے ۔آج ہم ایک بے مقصد قوم بن چکے ہیں ۔کہنے کو پاکستان آزاد ملک بن گیا مگر اپنے قیام کے تھوڑے دنوں ہی بعد کرپٹ حکمرانوں کے شکنجے میں پھنس گیااور اب جاگیر داروں کے جن کو انگریزوں نے جاگیریں عطا کی تھیں ،یہ جاگیریں ان کو غداری کی وجہ سے ملی تھیں چاہیے تو یہ تھا کہ ان سے جاگیریں ضبط کر لی جاتیں ،لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا بلکہ آزاد ہو کر بھی آزاد نہ ہوا ۔آج ہمارے ملک میں وہ آئین(اسلامی شریعت) نافذ نہ ہو سکا جس کے مقصد کو سامنے رکھ کر جد وجہد کی گئی تھی ملک میں ایسے حکمران اقتدار میں آئے جن میں سے اکثریت امریکہ و برطانیہ کی ذہنی غلام تھی ،صدیوں سے غلام تھی اور آج جس مقصد کے لیے پاکستا ن کے قیام کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان ،مال ،عزت کی قربانیاں دی تھیں وہ مقصد ہم بھول گئے ۔ہر سال یوم آزادی پر ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں مگر صرف ایک دن کے لیے اور پھر اس کو بھول جاتے ہیں اسی وجہ سے ترقی معکوس کا سفر جاری ہے ۔
اگر ہم آزادی کی قدر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کردار و عمل کو اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ کیونکہ اسلام کے نفاذ کے لیے اسلامی قلعہ بنانے کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا ۔ہمارا تو یہ حال ہے کہ ایک دن کو بیرون ممالک میں کئی کئی پریڈیں منعقد کی جا رہی ہیں۔خدارا کچھ ہوش کریں اپنے اندرونی خلفشار کو ختم کریں اور اتفاق و محبت کو اپنائیں ہمیں اپنے حصے کی شمع روشن کرنی چاہئے اندھیرا دور ہو ہی جائے گا۔
آیئے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم پاکستان میں ، فرقہ پرستی کے خاتمہ اور پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے جد وجہد کریں گے ۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین ۔