قائد کا پاکستان ہی رہنے دو !!!
میاں نواز شریف جب سے عدالت کے حکم پر معزول ہوتے ہیں‘ ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگئی ہے۔ وہ بار بار عوام کو للکار رہے ہیں کہ وہ ان کی خاطر اٹھ کھڑے ہوں اور موجودہ نظام کو بدل ڈالیں۔ میاں صاحب تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں اور آخری بار تو انہوں نے اپنے ریکارڈ توڑ کر ساڑھے چار سال گزار دیئے۔ کیا بتائیں گے کہ ”موجودہ نظام“ کو بدلنے کیلئے انہوں نے کیا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ان کے کہنے پر لڑیں گے‘ مریں گے اور عوام اثبات میں جواب دیتے تھے لیکن جب انہیں جنرل ضیاءالحق نے معزول کیا تو عوام میں سے چند ہی لوگ باہر نکلے۔ حتیٰ کہ ان کے بہت قریبی ساتھی اور سوہنا منڈا کہلانے والے پیرزادہ بھی چھپ کر بیٹھے رہے۔ کچھ نے اپنے طور پر پیپلز پارٹی کے نام پر ڈیڑھ اینٹ کی پارٹی بنا لی۔ بھٹو کی پھانسی پر بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی جاندار اور بھرپور مظاہرہ نہیں ہوا۔ اسی طرح جب میاں نوازشریف کا تختہ الٹ کر انہیں جیل ڈالا گیا تو مسلم لیگ ن میں سناٹا چھایا رہا۔ نوازشریف کو اپنی پارٹی میں سے کوئی ایسا رہنما نہیں ملا جس کو وہ پارٹی کی قیادت سونپ دیتے۔ اس وقت بھی پارٹی کو خاندانی ملکیت سمجھتے ہوئے اپنی اہلیہ کو پارٹی سونپ دی۔ بہادری کا یہ عالم کہ بھٹو جیسے انجام سے بچنے کیلئے سیاست سے 10 سال کیلئے بے دخلی کا معاہدہ کرکے سعودی عرب چلے گئے۔ اس وقت وہ موت سے ڈرنے کے بجائے استقامت کا مظاہرہ کرنے اور جیل کی سختیاں جھیلتے ہوئے ملک ہی میں رہتے تو آج وہ عوام سے کوئی توقع کرسکتے تھے۔ وہ بھی بھٹو کی طرح عوام کو ہی اکسا رہے ہیں کہ ان کو ایک بار پھر اقتدار میں لے آئیں۔ 20 کروڑ عوام کے ووٹوں کا رونا مسلسل رو رہے ہیں لیکن کیا ملک بھر کے 20 کروڑ عوام نے ان کو ووٹ دیا تھا؟
باقی پارٹیوں کو جو ووٹ ملے وہ کہاں جائیں گے۔ ان میں وہ ووٹ بھی شامل ہیں جو نوازشریف کی مخالفت میں پڑے لیکن امیدوار کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ انتخابی نظام کی خرابی ہے کہ اگر 100 میں سے کوئی 51 ووٹ حاصل کرلے تو جیت جاتا ہے اور اکثریت کا نمائندہ کہلاتا ہے جبکہ 49 فیصد ووٹ اس کے خلاف ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ اکثریت کے ووٹ تقسیم ہوجاتے ہیں اور کوئی ایک اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی جیت جاتا ہے۔ میاں نوازشریف خود کو 20 کروڑ عوام کے نمائندہ ثابت کرنے کا راگ الاپنا بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ ”عوام میرے پیغام کا انتظار کریں‘ اپنا پروگرام دوں گا‘ چین سے نہیں بیٹھوں گا“۔ میاں صاحب جو پیغام دینا ہے جلدی سے دے ڈالیں۔ آپ جس قسم کی مہم چلا رہے ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ آپ کو زیادہ موقع نہیں ملے گا۔ بھٹو کی لاف گزاف کی وجہ سے انہیں نظربند کردیا گیا تھا‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی جاتی امراءتک محدود کردیئے جائیں۔ ماضی سے سبق سیکھیں۔ ضروری نہیں کہ 20 کروڑ عوام آپ کی خاطر تا دیر سڑکوں پر رہیں۔ ایک خبر کے مطابق میاں نوازشریف نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اگر وہ عالمی عدالت انصاف میں چلے گئے تو ایک لمحے میں بحال کردیئے جائیں گے۔ میاں صاحب کو اپنی عدالتوں پر تو کوئی اعتبار نہیں رہا بلکہ معزز ججوں کو سازش کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرکے دیکھ لیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ اقدام غداری کے مترادف ہوگا یا نہیں لیکن عوام کیلئے یہ کوئی اچھا پیغام نہیں ہوگا۔ میاں صاحب اس جلوس پر نہ جائیں۔ یہ محض چند دن کا کھیل ہے۔ جاتی امراءمیں بیٹھ کر سکون سے لائحہ عمل بنائیں اور اپنے مخلص ساتھیوں سے ضرور مشورہ کریں۔ پانامہ مقدمے میں میاں صاحب پل پل رنگ بدلتے رہے۔ جب تحقیقات کیلئے مشترکہ ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی گئی تو شادیانے بجائے گئے اور ایک دوسرے کو مٹھائی کھلائی گئی۔ جب رپورٹ آئی اور اس کی بنیاد پر فیصلہ ہوا تو اس وقت بھی مٹھائی بانٹنی چاہئے تھی کیونکہ بار بار فیصلہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا جاتا رہا۔ ایسے میں مافیا اور ڈان کا رویہ کیا ہوتا ہے‘ یہ تحقیق طلب معاملہ ہے۔ تقریروں میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے اور کئی راز ان کے سینے میں دفن ہیں‘ وقت آنے پر بتاﺅں گا۔ میاں صاحب یہ وقت آگیا ہے‘ آپ بھی اپنا سینہ کھول دیں اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی بتا دیں کہ ملک کے خلاف ایسی کون سی سازش ہے جس سے دو سویلین‘ دو فوجی افسر اور ان سمیت کل پانچ افراد باخبر ہیں۔ چوہدری صاحب دوسری جماعتوں کو نہ سہی‘ پارلیمان کو ہی اعتماد میں لے کر یہ راز اگل دیں کہ قوم متحد ہوکر سازش کا مقابلہ کرسکے اور آپ کی وجہ سے بے خبری میں نہ ماری جائے۔ نوازشریف کے قافلے کی وجہ سے ایک بچہ کچل کر ہلاک ہوگیا جس کو نوازشریف نے شہید جمہوریت قرار دے دیا۔ اس کی ماں آپ کو کوسنے دے رہی ہے۔ یہ ایک حادثہ ہی ہوگا لیکن پوری ریلی کیلئے باعث شرم ہے کہ کسی نے بچے کو اٹھا کر ساتھ چلنے والی ایمبولینسوں میں نہیں ڈالا۔ فوری طور پر کسی ن لیگی نے والدین کی دل جوئی بھی نہ کی۔ یہ ہے عوام سے محبت۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو عمران خان صاحب نے تمام پٹھانی روایات کو کچل کر رکھ دیا ہے اور شیخ رشید جو کہ نواز شریف کو جیل میں ”چمیاں“دیتا رہتا تھا اور اپنا مائی باپ سمجھتا تھا آج وہ غلیظ زبان بول رہا ہے جو کہ شاید کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں بولی جا سکتی خدارا پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان ہی رہنے دو نہ نیا پاکستان چاہئے جس میں زبان کو کوئی لگان نہ ہو اور نہ ہی ایسا انقلاب چاہئے جو صرف مصیبت کے وقت یاد آئے وہ بھی جب اپنے گلے کا ہار بنے اس وقت۔