Tayyab Mumtaz

نئی امریکی پالیسی اور پاکستانی سفارت کاری!!!

صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سوموار کی شام کو افغانستان میں جاری سولہ سالہ جنگ ختم کرنے کے ضمن میں طویل عرصے سے متوقع نئی حکمت عملی کا اعلان کر دیا ہے لیکن انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ کس قدر نئے امریکی فوجیوں کی کمک افغانستان بھیجی جائے گی یا پھر انہوں نے ان حالات کا بھی ذکر کرنے سے انکار کر دیا جن کے ذریعے یہ دیکھا جا سکے گا کہ افغانستان میں امریکی مشن کو کس قدر کامیابی نصیب ہوئی۔انہوں نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ ضرور کہا کہ امریکہ افغانستان سے جنگ جیتے بغیر واپس نہیں جائے گا لیکن اس ضمن میں انہوں نے اپنے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے اس فوجی مشن میں امریکی مداخلت کو مزید گہرا کرنے کا عندیہ دیا جسے ان کے پیشروﺅں اور بذات خود انہوں نے بے سود قرار دیا تھا۔
ٹرمپ نے افغانستان کے لیے نئی امریکی پالیسی کو اپنے پیش رو اوباما سے کہیں مختلف قرار دیا اور کہا کہ ان کے پیش رو نے افغانستان میں امریکی افواج کی مداخلت کے لیے مصنوعی اوقات کار کا فیصلہ کیا تھا ،نیز، اب ان کی پالیسی ایک جامع، حالات پر مشتمل علاقائی موقف اور سیاسی حل پر مبنی ہوگی۔اس منصوبے کا ایک حصہ یہ ہے کہ افغانستان کی افواج کو تربیت ومعاونت مہیا کرنے کی خاطر افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجے جائیں گے تاکہ طالبان کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ وہ افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکتے جنہوں نے اب تک افغانستان کے ایک تہائی علاقے کو اپنے تسلط میں لیا ہوا ہے۔لیکن اپنی نوعیت کے اعتبار اور مجموعی طور پر ٹرمپ کی پالیسی اپنے پیش رو اوباما کی پالیسی سے بہت زیادہ مختلف نہیں جس میں افغانستان میں روایتی جنگ کے علاوہ پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کی پالیسی شامل تھی۔امریکی انتظامیہ کے اہل کار نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں مصروف امریکی فوج کے نظام میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور امریکہ کی ترجیحات وہی رہیں گی کہ افغانستان کی فوج کو تربیت ومعاونت مہیا کی جائے اور انسداد دہشت گردی پر مشتمل کارروائیاں انجام دی جائیں۔اس پالیسی میں وہ نئے اقداما ت شامل ہوں گے جن کے ذریعے پاکستان پر دباﺅ ڈالا جا سکے گا کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دے اور یہ ایک ایسا ہدف ہے جس کے حصول کے لیے امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں عرصہ دراز سے ہی پاکستان پر دباﺅ ڈالتی رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے لیے مزید فوجی اور معاشی مدد کا انحصار افغانستا ن کے حکمرانوں کے اقداما ت پر ہے وہ ملک میںجاری بدعنوانی کو کیسے ختم کرتے ہیں اور جنگجوسرداروں کو اپنی معاونت کے لیے کیسے آمادہ کرتے ہیں۔
صدرٹرمپ کی اس نئی پالیسی کے باعث خدشہ ہے کہ افغانستان میں مزید امریکی فوجی بجھوانے کے ذریعے بھی امریکہ کسی مزید کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جبکہ امریکی خفیہ اداروں نے یہ بتا دیا کہ امریکہ کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں کہ افغانستان میں گزشتہ سولہ برس سے جاری جنگ میں شکست ہو جبکہ طالبان اس ملک میں تیزی سے کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔
افغانستان کے لیے نئی امریکی پالیسی اس شورش زدہ ہفتے کے بعد سامنے آئی جب Charlottesville میں سفیدفام نسل پرستانہ متشدد کارروائیوں کے بعد ٹرمپ کی طرف سے متنازع بیان سامنے آیا تھا اور جس کے باعث یہ تاثر قائم ہوا کہ صدر ٹرمپ امریکی صدر کے فرائض بجا لانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔امریکہ کے ایک علاقے میں شورش کے بعد حالا ت پرسکون کرنے کا ایک سنہری موقع ضائع کردینے کے ذریعے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان میں کسی بھی مسئلے کو سفارتی طور پر حل کرنے کی اہلیت موجود نہیں اور وہ ہر معاملے کو بزور قوت حل کرنے کی کوشش کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
ایک عام شہری کی حیثیت سے وہ افغانستان میں امریکی مداخلت کے شدید مخالف تھے اور ان کے نزدیک افغانستا ن میں طویل ترین امریکی جنگ امریکہ کے لیے مہنگی ترین جنگ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی جنگ محض نقصان ہی نقصان ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ امریکی صدر نے جون میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے افغانستان میں جنگ کی پالیسی تیار کرنے کا اختیار وزیردفاع کو دے دیا ہے لیکن ٹی وی قوم سے خطاب کے دوران انہوں نے اپنے پورے اختیار کے ساتھ افغانستان کے لیے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا۔ان کی یہ تقریر میٹس اور میک ماسٹر جیسے افراد کے لیے فتح کا باعث ہے جن کا خیال تھا کہ اگر افغانستان میں مزید امریکی کارروائی نہ کی گئی تو اس کے نتائج امریکہ کے لیے خطرناک ہوں گے۔افغانستان کے کچھ لوگوں نے اس پالیسی کی تعریف کی ہے جبکہ کچھ نے یہ کہتے ہوئے تنقید کی ہے کہ طالبان اور دیگر شورشیوں کی طرف سے میدان جنگ سے فرار کے بعد ہی ملک میں ایک سیاسی حل سامنے آ سکتا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکمت عملی نہ تو پہلے کامیاب ہوئی اور نہ مستقبل میں کامیاب ہوگی۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو چوہدری نثار کی دو ماہ پہلے کی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو گھیرے میں لیا جارہا ہے اور اس بات کا صرف دو جرنیلوں،خود ان کو اور نوازشریف کے علاوہ ایک اور شخص ہے جسے ہے اس پالیسی کے منظر پر آنے کے بعد اس بات میں بہت حد تک صداقت نظر آ رہی ہے کیونکہ اس ساری تقریر میں کم از کم 40سے زائد مرتبہ پاکستان کا نام لیا گیا اور انتباہی انداز میں ڈو مور کا مطالبہ کیا گیا جبکہ روایتی حریف بھارت کو پوری طرح تھپکی دی گئی ہے جو کہ خطے میں امن کو مزید تباہی کی طرف لیجانے کے مترادف ہے۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو چاہئے کہ وزارت خارجہ کو متحرک کرے اور امریکہ میں ہمارے سفیر اور تمام پاکستانی کمیونٹی جو کہ میلوں ٹھیلوں میں مصروف ہیں کو اپنا اصل کردار ادا کرنا چاہئے تا کہ پاکستان کو کسی مصیبت سے بچایا جا سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button