پانامہ کے بعد پیراڈائز پیپرز،اس حمام میں سب ننگے
ابھی پانامہ کے بعد اقامہ کی بازگشت جاری تھی کے یہ پیراڈائز کا ہنگامہ شروع ہو گیا ہے ، ان پیراڈایئر پیپرز میں 25 ہزار سے زائد کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے، پیراڈائز لیکس ایک کروڑ 34 لاکھ دستاویزات پرمشتمل ہیں ، 47 ممالک کے 127 نمایاں افراد کے نام شامل ہیں۔سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا نام بھی نئی دستاویزات میں شامل ہے ،ڈونلڈ ٹرمپ کے13 قریبی ساتھی، کینیڈین وزیراعظم کے قریبی ساتھی و مشیران، اردن کی سابق ملکہ نور، یورپ میں نیٹو کے سابق کمانڈر ویزلے کلارک کے نام بھی فہرست میں شامل ہیں صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی سی آئی جے نے پاناما لیکس کی طرح ایک لیکس جاری کر دی ، نئی لیکس کو پیراڈایئر پیپرز کا نام دیا گیا ہے ،پیرا ڈائیز پیپرز میںپیراڈائز لیکس میں 25 ہزار سے زائد ایسی کمپنیوں کا انکشاف کیا گیا ہے جبکہ لیکس کا بڑا حصہ کمپنی ایپل بائی کی دستاویزات پر مشتمل ہے،دنیا کی معروف شخصیات اور کمپنیوں کے نام شامل ہیں، پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا نام بھی نئی دستاویزات میں شامل ہے،نیشنل انشورنس کارپوریشن کے سابق سربراہ ایاز خان نیازی کا نام بھی نئی دستاویزات میں شامل ہے ،دستاویز میں جن بین الاقوامی شخصیات کے نام آئے ہیں ان میںملکہ برطانیہ الزبتھ،سابق ملکہ برطانیہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، امریکی وزیر تجارت ولبر راس، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 13 قریبی ساتھی، اردن کی سابق ملکہ نور، یورپ میں نیٹو کے سابق کمانڈر ویزلے کلارک بھی شامل ہیں۔
اتوار کے روز آئی سی آئی جے نے پاناما لیکس کی طرح پیراڈائز پیپرز کمپنی ”ایپل بائی“ کی دستاویز جاری کیں،پیراڈائز پیپرز میں 47 ممالک کے 127 نمایاں افراد کے نام شامل ہیں۔ آئی سی آئی جے کے نمائندے عمر چیمہ نے بتایا کہ پیراڈائز لیکس میں ایک کروڑ 34 لاکھ دستاویزات شامل ہیں اور اس کام کے لیے67 ممالک کے381 صحافیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔پیراڈائز لیکس کا بڑا حصہ کمپنی ایپل بائی کی دستاویزات پر مشتمل ہے اور یہ دستاویزات سنگاپور اور برمودا کی دو کمپنیوں سے حاصل ہوئی ہیں۔
پیرا ڈائز پیپرز پہلے جرمن اخبار نے حاصل کیے اور آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیے۔ان میں180 ممالک کی25 ہزار سے زائد کمپنیاں، ٹرسٹ اور فنڈز کا ڈیٹا شامل ہے۔ پیراڈائز پیپرز میں 1950 سے لے کر 2016 تک کا ڈیٹا موجود ہے۔پیراڈائز پیپرز میں جن ممالک کے سب سے زیادہ شہریوں کے نام آئے ہیں ان میں امریکا 25 ہزار 414 شہریوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ برطانیہ کے 12 ہزار 707 شہری، ہانگ کانگ کے 6 ہزار 120شہری، چین کے 5 ہزار 675 شہری اور برمودا کے 5 ہزار 124 شہری شامل ہیں۔
پیرا ڈائیز پیپرز کے مطابق پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا ٹرسٹ بھی سامنے آیا ہے ، شوکت عزیز کا برمودا میں انٹارکٹک ٹرسٹ ہے جو انہوں نے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا ، شوکت عزیز ، ان کے بچے اور اہلیہ ٹرسٹ کے بینی فیشل اونر ہیں،دستاویزات کے مطابق وزیر خزانہ بننے سے کچھ پہلے شوکت عزیز نے ڈیلاویر (امریکا) میں ٹرسٹ قائم کیا جسے برمودا سے چلایا جارہا تھا۔نیشنل انشورنس کارپوریشن کے سابق سربراہ ایاز خان نیازی کا نام بھی نئی دستاویزات میں شامل ہے،ایاز خان نیازی کے برٹش ورجن آئی لینڈ میں چار آف شور اثاثے سامنے آئے ہیں۔
ان میں سے ایک اینڈالوشین ڈسکریشنری ٹرسٹ (Andalusian Discretionary Trust) نامی ٹرسٹ تھا۔ باقی تین کمپنیاں تھیں جن کے نام یہ تھی: اینڈالوشین اسٹیبلشمنٹ لیمیٹڈ، اینڈالوشین انٹرپرائسز لیمیٹڈ اور اینڈالوشین ہولڈنگز لمیٹیڈ۔ان سب کو 2010 میں اس وقت قائم کیا گیا تھا جب ایاز نیازی این آئی سی ایل کے چیئرمین تھے۔ایاز نیازی کے دو بھائی حسین خان نیازی اور محمد علی خان نیازی بینی فشل اونر تھے جبکہ ایاز نیازی، ان کے والد عبدالرزاق خان اور والدہ فوزیہ رزاق نے بطور ڈائریکٹر کام کیا۔
پیرا ڈائیز پیرز میں ملکہ برطانیہ کا نام بھی سامنے آیا ہے ، دستاویز کے مطابق ملکہ الزبتھ نے آف شور کمپنیوں میں کئی ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے حوالے سے یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ انہوں نے میڈیکل اور کنزیومرلون کے شعبے میں کام کرنے والی آف شور کمپنیوں میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ دستاویز کے مطابق ملکہ برطانیہ کی ذاتی اسٹیٹ کمپنی ڈچی آف لنکاسٹر نے 2007 تک کے مین آئی لینڈز کے ایک فنڈ میں سرمایہ کاری کی جس نے آگے ایک پرائیوٹ ایکوئٹی کمپنی میں سرمایہ کاری کرتی تھی۔
یہ کمپنی غریب افراد کو ادھار پر گھریلو اشیاءفراہم کرتی تھی جس پر شرح سود 99.9 فیصد تک تھا۔دستاویز میں جن بین الاقوامی شخصیات کے نام آئے ہیں ان میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، امریکی وزیر تجارت ولبر راس، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے13 قریبی ساتھی، اردن کی سابق ملکہ نور، یورپ میں نیٹو کے سابق کمانڈر ویزلے کلارک بھی شامل ہیں، اردن کی سابق ملکہ نور کا نام بھی سامنے آیا ہے جو جرسی نامی جزیرے میں دو ٹرسٹوں کی استفادہ کنندہ (بینیفیشری) کے طور پر سامنے آئی ہیں۔
پیراڈائز پیپرز میں دنیا کی بڑی کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس بچانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔ دستاویز کے مطابق فیس بک نے اربوں ڈالر کا منافع آئرلینڈ کے ذریعے ’کے مین‘ آئی لینڈ منتقل کیا جہاں ٹیکس شرح صفر فیصد ہے۔ فیس بک کچھ ملکوں میں اشتہارات سے ملنے والے منافع پر ٹیکس ادا نہیں کرتی۔یورپ میں نیٹو کے سپریم کمانڈر رہنے والے سابق امریکی جنرل ویزلے کلارک بھی ایک آن لائن گیمبلنگ کمپنی کے ڈائریکٹر تھے اور اس کمپنی کی ذیلی آف شور کپمنیاں بھی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مائیکروسوفٹ کے شریک بانی پال ایلن اور ای بے کے بانی پائری اومیڈیار کا نام بھی سامنے آئے ہیں اور ان کی جانب سے بھی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا ہے۔معروف امریکی گلوکارہ میڈونا اور پاپ سنگر بونو نے بھی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی۔ جبکہ موجودہ امریکی وزیر تجارت ولبر راس نے بھی روسی بااثر شخصیات کے لیے کام کرنے والی ایک کمپنی سے مالی فائدے حاصل کیے۔
انہوں نے کے مین آئی لینڈز میں موجود متعدد کمپنیوں کے ذریعے نیویگیٹر ہولڈنگ نامی جہاز رانی کی کمپنی میں سرمایہ کاری کی۔کھیلوں کی ملبوسات بنانے والی کمپنی نائیکی جیسی بڑی کمپنی نے ہالینڈ میں ایسا سیٹ اپ بنا رکھا ہے جس کے ذریعے یورپ اور مشرق وسطیٰ سے ملنے والے منافع کے بڑے حصے پر ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ اس خطے سے ملنے والا منافع تقریباً ساڑھے 8 ارب یورو تک پہنچتا ہے۔ کمپنی نے امریکا سے باہر تقریباً 12.25 ارب ڈالر جمع کیے جن پر 2 فیصد سے بھی کم ٹیکس دیا۔دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کے حوالے سے یہ تفصیلات آئی ہیں کہ یورپی یونین کے کمیشن نے گزشتہ سال ایپل کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹیکس کی مد میں 13 ارب یورو آئرلینڈ کو ادا کرے۔ یہ مقدمہ اب بھی یورپی عدالت انصاف میں زیر سماعت ہے۔
سوچنے والی بات ہے کہ دنیا بھر کے حکمران اور امیر طبقہ ایسی بہت سی آف شور کمپنیاں بناتے اور فائدہ اٹھاتے ہیں اور غریب ممالک کے حکمران کرپشن کے اس پیسے کو وہاں چھپاتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ اقوام متحدہ میں کوئی ایسی قرارداد بن جائے کہ ایسے تمام ممالک کے ان افراد کا پیسہ منجمد کر دیا جائے بلکہ دنیا سے غربت کے خاتمے کے لیے ایسی مہم چلائی جائے تا کہ غریب کی زندگی بھی آسان ہو سکے۔