کینیڈین شہریوں کے بعد زینت شہزادی کی واپسی
لاہور سے 2015 میں لاپتہ ہونے والی خاتون صحافی زینت شہزادی دو سال بعد واپس اپنے گھر پہنچ گئیں۔لاپتہ افراد کے لیے قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے گفتگو کرتے ہوئے زینت شہزادی کی واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انھیں پاک افغان سرحد کے قریب سے بازیاب کروادیا گیا ہے۔حال ہی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین مقرر ہونے والے سابق جسٹس نے کہا کہ خاتون صحافی کو چند غیرریاستی عناصر اور دشمن ایجنسیوں نے اغوا کیا تھا تاہم انھیں بازیاب کرادیا گیا ہے جس کے لیے بلوچستان اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں قبائلی رہنماو¿ں نے اہم کردار کیا۔یاد رہے کہ زینت شہزادی کو لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھانے پر اگست 2015 میں غائب کردیا گیا جبکہ وہ ایک بھارتی شہری کی گمشدگی پر کام کررہی تھی۔انھوں نے گمشدہ بھارتی شہری حامد انصاری کی والدہ فوزیہ انصاری کی جانب سے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دائر کی تھی۔دوسری جانب حامد انصاری کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں ایک خاتون کی تلاش میں تھے جن سے ان کی انٹرنیٹ میں دوستی ہوئی تھی۔سلمان کا کہنا تھا کہ زبردستی لاپتہ ہونےوالے افراد کے کمیشن کی انکوائری کے لیے درخواست منظور کرکے آگے بڑھادی گئی تھی۔چند ماہ قبل میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ حامد انصاری کو جاسوسی کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔میں یہاں کچھ حقائق واضح کرنا اور اپنی صحافتی ذمہ داری پوری کرنا ضروری سمجھتا ہوں جب زینت شہزادی کو اغواءکیا گیا تو اس وقت تمام میڈیا نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی اس کے بعد میڈیا ورکرز آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے لاہور میں مظاہرے کیے تو کچھ لوگوں نے اس کو سامنے لانا اپنا فرض سمجھا اس سارے معاملے میں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم نے پریس کلب لاہور کے سامنے احتجاج کیا اور دھرنا دیا تو واپسی گھر جاتے ہوئے مجھے پرائیویٹ نمبر سے جو کال آئی اس میں واضح کہا گیا کہ اس معاملے میں نہ پڑو اور خیریت جانو ورنہ نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں سپیشل برانچ سے آنے والی اس کال کے بعد جو کہ مجھے اور میرے جنرل سیکریٹری کو بھی آئی تھی ہمارے ورکرز میں بھی ایک سراسیمگی پیدا ہو گئی کہ اس دیدہ دلیری سے ان لوگوں نے واضح الفاظ میں دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ایک سوال یہاں اٹھانا چاہتا ہوں کہ جو بھی بندہ دن دیہاڑے لاہور جیسے بڑے شہر سے اٹھایا جاتا ہے اور تقریباً تین سال گزرنے کے بعد اس کو افغانستان کے ملحقہ علاقوں سے برآمد ہونا معنی خیز ہے ایجنسیوں نے یہ اچھا کام پکڑا ہے جس سے تمام مقاصد حاصل کر لو ان کو افغانستان کے بارڈر سے برآمد کروا دو ۔ابھی تو دیکھنا ہوگا کہ زینت شہزادی کس پوزیشن میں ہے اور اب وہ منظر پر آتی ہے یا کہ ایسے ہی گمنام زندگی گزارنے کو ترجیح دے گی جیسے بہت سارے برآمد ہونے والے افراد مجبوری میں اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔
بہر حال خوشی اس بات کی ہے کہ اس 24سال کی نوجوان بچی کو آخر کار رہا کر ہی دیا گیا ہے اس کے ساتھ کیا معاملات ہوتے رہے اور وہ کس پوزیشن میں رہی یہ تو علیحدہ کہانی ہے دوسری طرف کینیڈا کے رہائشی فیملی نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کو شروع ہی سے پاکستان میں رکھا گیا اگر ایسا ہی ہے تو ضرب عضب کے نام پر جو آپریشن کیا گیا اس کے دوران کہیں دوبارہ ”گڈ طالبان اور بیڈ طالبان“ کی اختراع کو مدنظر رکھ کر کرنے کو ہی تو سامنے نہیں رکھا تھا۔
ویسے دنیا میں نمبر ون کہلانے والی افواج اور ایجنسیوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی ناک کے نیچے سے لوگوں کو (ان کے گڈ ) طالبان بھرے شہروں سے اغوا کرتے ہیں اور بڑے آرام کے ساتھ افغان سرحد یا افغانستان میں منتقل کر دیتے ہیں یہ بات ہضم کرنے کے لیے بڑی ہمت درکار ہے بہر حال خدا کرے کہ وہ لوگ جو یہ گھناﺅنا فعل کر رہے ہیں اور انسانیت کو سسکتا ہوا دیکھتے ہیں ان کو خدا ہدایت عطا کرے اور ان باقی افراد جو کہ ان کی صعوبتوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہیں کو جلد رہائی اور آزادی عطا کرے ۔