پاکستان میںدھرنا سیاست جمہوریت کا مستقبل
حکومت نے قانونِ ختمِ نبوت کو کیوں چھیڑا؟ نواز جمہوریت ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں،پاکستان کا وزیر خزانہ لندن کے ہسپتال میں پڑا ہے، پتا نہیں کیوں پڑا ہے؟ جو وزیراعظم خود کو نہ مانے، میں اس کو کونسے ٹیکے لگاو¿ں کہ وہ اپنے آپ کو وزیراعظم کہنے لگے؟
نواز شریف تاریخ میں مائنس ہو چکے ہیں، آج نواز شریف کے پاو¿ں جلے تو انہیں جمہوریت یاد آئی، یہی نواز شریف کابینہ اور اسمبلیوں کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔
بہر حال پاکستان میں سارے ادارے ہی اپنی حدود و قیود میں نہیں ، اگر میں اپنی صحافتی صفوں میں ہی دیکھوں اور نذر دوڑاﺅں تو بہت سی گدھیں ہیں جو کارکنوں کے نام پر کارکنوں کو ہی نوچ رہی ہیں،کبھی کسی صحافی اور کارکن کے قتل کی صورت میں اور کبھی کارکنوں کے حقوق کے نام پر اپنا ریٹ بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ایک لفظ”ج“ ہے جو کہ کسی بھی ریاست میں بہت اہمیت رکھتا ہے اس ”ج“ سے مراد ”ججز“”جرنیل“”جرنلسٹ“ہے اور پاکستان واحد ملک ہوگا جس میں یہ تمام”ج“ بگڑے ہوئے ہیں ۔نہ تو جرنیل ہی اپنی حدود میں ہیں اور نہ جج رہے جرنلسٹ تو وہ بھی اپنی تنخواہ کے حصول اور رعایتوں میںاضافے کیلئے صحافتی تعلیم سے بہت دور ہیں۔سیاستدان تو ویسے ہی کرپٹ قسم کا ٹولہ سمجھا جاتا ہے اگر کوئی شریف آدمی اس طرف آنے لگے تو اسے اس کے دوست احباب گھر والے جو جملہ کہتے ہیں اس پر بہت تکلیف ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے ”یار چھوڑ دو اس کام کو یہ شریف آدمی کا کام نہیں“
بہر حال رہے ہمارے علماءکرام خدا کی پناہ ۔کبھی مدارس کے نام پر چندہ کھانا اور کبھی مسجد کے نام پر،کبھی میلاد کے نام پر لنگر پر ٹوٹنا اور کبھی محمد عربی ﷺ “ کے نام نامی کو استعمال کر کے غریب لوگوں کے بچوں کو آگ میں جھونکنا ان لوگوں کا وطیرہ بن گیا۔کبھی عمران خان اور طاہرالقادری کا دھرنا اور اب مولانا خادم حسین رضوی صاحب کا دھرنا ،فیض آباد پر گزشتہ پندرہ دنوں سے جو کچھ ہورہا ہے اور جو زبان وہاں استعمال کی جارہی ہے میرا خیال ہے حکومت اتنی بدھو نہیں ہے جتنا وہ دوسروں کو دکھانا چاہتی ہے۔ اسے سمجھ جانا چاہیے کہ شطربج کی بساط کے پیچھے بیٹھے گیم پلانر انہیں ہرحال میں شطرنج کی بساط سے اٹھانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں چاہے وہ کچھ بھی کرلیں۔
سلطنت عباسیہ بلفرض اس دھرنے کو اٹھانے میں کامیاب ہو بھی گئی تو فکر نہ کریں بیک اپ پر ایک اور جماعت دھرنے کی تیاری کیے بیٹھی ہے اسکے بعد وہ پہنچ جائے گی،، پھر دما دم مست قلندر ہوگا۔
بلفرض سلطنت عباسیہ نے انہیں پہنچنے نہ بھی دیا تو ایسی صورتحال پیدا کردی جائے گی کہ ہر جگہ “وٹے اور سوٹے” چل رہے ہوں گے۔ بہرحال سیانے کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے سمجھ اسے خود جانا چاہیے۔
تاہم پڑھنے والوں کے ذہن میں اب یہ آرہا ہو کہ دھرنے کے لیے یقیناً ڈاکٹر دھرنا آرہے ہوں گے تو نہیں نہیں نہیں۔ اب ایک نئی فوج بیک اپ پر تیار کی جاچکی ہے۔ہمارے ایک دوست رانا سہیل صاحب نے شیخ رشید کے ٹورنٹو دورہہ پر ایک تبصرہ کیا تھا کہ شیخ کے کینیڈا یاترا کے پیچھے کیا مقاصد تھے بلکل حقیقت پر مبنی تھا مگر دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری کچھ کچھ چیزوں کو سمجھ چکے ہیں اسلیے فی الحال وہ مزاکراتی پوزیشن میں ہیں۔ فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کو بیک اپ ٹو بھی جلد آرہا ہے۔
اس لیے سلطنت عباسیہ و شریفیہ جو مرضی کریں رو رو کر مدت پوری کریں یا ضد سے ہونا وہی ہے جو گیم پلانر چاہیں گے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبھی کسی نے عوام کے مسائل پر کوئی دھرنا دیا ہے کسی نے دھاندلی پر دھرنا دیا،کسی نے اپنے محل کو بچانے کے لیے اور کسی نے ناموس رسالت کے نام پر اپنا ریٹ بڑھانا اور غریبوں کے بچوں کو آگ اور خون میں نہلانا شروع کیا ہوا ہے۔اگر ہرہم صرف اپنے تعلیمی نظام کی طرف ہی نظر دوڑائیں تو پنجاب ،سندھ میں اگر صرف ایم بی بی ایس کے بچوں کا مستقبل ہی دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ والدین کے ساتھ ساتھ وہ ہونہار بچے کس قرب سے گزر رہے ہیں۔کئی بچوں نے خودکشیاں کر لی ہیں خدارا اس قوم پر کچھ رحم کریں چاہے ہمارے ججز ہوں یا جرنیل یا پھر جرنلسٹ کسی ایک عوامی ایشو پر کو اقدام کرو تا کہ کوئی یہ تو کہہ سکے کہ یہ عوامی مسائل کے لیے باہر نکلے ہیں اس کے آگے میں مزید کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کیوں کہ یہاں جج بھی بکتے ہیں جرنیل بھی اور علماءاورجرنلسٹ بھی۔