Tayyab Mumtaz

دھرنے فوج ججز اور سیاستدان ،عوام کہاں ہیں

حکومت اور فیض آباد دھرنا کے مظاہرین کی قیادت کے درمیان معاہدہ طے پا گیا جس میں افواج پاکستان کی جانب سے میجر جنرل فیض حمید نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔بلکہ مظاہرین میں ایک ایک ہزار روپے بھی بانٹے گئے اور انہوں نے اس چیز کو دلیرانہ انداز میں لوگوں میں عام بھی ہونے دیا۔ معاہدے پر حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وفاقی سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا جبکہ مظاہرین کے قائدین کے طور پر علامہ خادم حسین رضوی (مرکزی امیر تحریک لبیک) پیر محمد افضل قادری(سرپرست اعلیٰ) محمد وحید نور (مرکزی ناظم اعلیٰ) نے اپنے اپنے دستخط ثبت کئے ہیں جبکہ میجر جنرل فیض حمید کے دستخط بھی موجود ہیں جن کی وساطت سے معاہدہ طے پایا۔
معاہدے کی رو سے (1) وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔(2) راجہ ظفرالحق کی انکوائری رپورٹ تیس دن میں منظرعام پر لائی جائے گی اور جو بھی افراد ذمہ دار قرار پائے ان کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ (3) 6 نومبر 2017ءسے دھرنا کے اختتام پذیر ہونے تک تحریک لبیک یا رسول اللہ کے جتنے بھی افراد ملک بھر میں گرفتار کئے گئے ہیں ایک سے تین روزمیں ضابطہ کی کارروائی مکمل کر کے رہا کر دیئے جائیں گے، ان پر درج مقدمات اور نظربندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ (4) 25 نومبر 2017ءکو ہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف تحریک لبیک یا رسول اللہ کو اعتماد میں لے کر انکوائری بورڈ تشکیل دیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کر کے حکومت اور انتظامیہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا تعین کرے اور 30 روز میں انکوائری مکمل کر کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ (5) 6 نومبر 2017ءسے دھرنا کے اختتام تک جو سرکاری و غیرسرکاری املاک کا نقصان ہوا، اس کا ازالہ وفاقی و صوبائی حکومت کرے گی۔ (6) حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہے ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔ معاہدے کے آخر میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی خصوصی کاوش کے ذریعے طے پایا جس کے لئے ہم ان کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے قوم کو ایک بڑے سانحہ سے بچا لیا۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ معاہدہ کے اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ان کے مندرجات پر باقاعدہ عمل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے باقاعدہ اعلان کیا وزیراعظم کی جانب سے منظوری دے دی گئی ہے۔ فیض آباد کے مظاہرین کی قیادت نے دھرنے کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ۔ مظاہرین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پُرامن طریقے سے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ اس کے ساتھ ان سے یہ بھی اپیل کی گئی ہے کہ احتجاج کو ختم کر دیں۔ شہریوں کی آمدورفت میں جہاں جہاں بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں انہیں دور کر دیا گیا۔فیض آباد میں 21 روز بعد لاری اڈہ کھل گیا ہے اور شہر کی مارکیٹوں میں کاروبار کی شروعات ہو گئی۔ اسی طرح لاہور میں موٹروے کے ٹریک پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا ہے اور وہ ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے۔
مجھے توقع ہے کہ معاہدہ طے پا جانے اور اس کے مندرجات پر عمل درآمد شروع ہو جانے کے بعد پاکستان کے داخلی امن و سلامتی کو جو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے اور عام آدمی کے لئے روزمرہ کی زندگی کے معمولات کو جاری رکھنا مشکل تر ہو چکا تھا اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور امن عامہ کی صورت حال کو کوئی خدشہ لاحق نہیں رہے گا۔ یہ اس معاہدے کے مثبت پہلو ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تاہم جس طرح اس بحران کا خاتمہ ہوا اور جس طریق کار کے تحت مندرجہ بالا معاہدہ طے پایا اس کے بارے میں کئی آئینی اور اصولی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد اس ضمن میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ ’آرمی چیف ملک کے چیف ایگزیکٹو کا حکم ماننے کی بجائے ثالث بن گئے‘۔ انہوں نے سوال اٹھایا ’فوج کون ہوتی ہے ثالثی کا کردار ادا کرنے والی۔ کیا فوج اقوام متحدہ ہے جو ثالثی کروا رہی ہے‘۔ جسٹس شوکت صدیقی نے استفسار کیا کہ ’پاکستانی قانون میں ایک میجر جنرل کو ثالث بنانے کا اختیار کہاں دیا گیا ہے؟ جس بندے کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے تھا اسے ثالث بنا دیا گیا ہے‘۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی سوال اٹھایا کہ ’کہاں گیا ان کا ”ضرب عضب اور ردالفساد یہاں ان کو فساد نظر نہیں آیا؟ یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہی تھے، سیکشن 4 کے تحت انتظامیہ کو ہنگامی صورت حال میں فوج بلانے کا اختیار حاصل ہے جبکہ سیکشن 5 کے تحت فوج انتظامیہ کا حکم ماننے کی پابند ہے‘۔ جسٹس شوکت صدیقی نے فوج کو براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’فوج اپنی آئینی حدود میں رہے کیونکہ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکار نہیں ہیں اور جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ حکومت کی دی ہوئی بندوق واپس کر کے ریٹائر ہو جائیں اور سیاست کا شوق پورا کر لیں‘۔ انہوں نے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’حکومت انوشہ رحمن کو بچانے کے لئے زاہد حامد کی قربانی دے رہی ہے‘۔ جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ ’انوشہ رحمن ڈرٹی گیم کھیل رہی ہے، ناموس رسالت سے متعلق کیس میں انوشہ رحمن کے کردار پر نکتہ اٹھایا گیا تھا، عدالت کے جج کے اس سوال پر کہ ’احسن اقبال آپ بتائیں کہ قانون میں کہاں یہ اختیار دیا گیا ہے، جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’اندرونی سکیورٹی کے حالات بن رہے تھے، روزانہ کسی کرنل، میجر، ایڈیشنل آئی جی پر حملے ہو رہے ہیں اور ایک ایٹمی قوت کی حامل ریاست کو ناکام دکھانے کے لئے ملک کے اندرونی حالات خراب کرنے کی سازش ہو رہی ہے‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موٹرویز، ریلویز اور شہروں کو بند کیا جا رہا تھا، اس لئے مظاہرین کے ساتھ جو معاہدہ ہوا وہ ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لئے کیا گیا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے آئی بی کو مظاہرین کے پاس آنسو گیس، ٹیئر گیس، شیل گن اور ماسک کی موجودگی کی تحقیقات کر کے اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
میں ان تمام سوالوں پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ماسوائے اس کے کہ پاکستان کے اندر آئین و قانون کی عمل داری کے حوالے سے یہ نہایت نازک اور سنجیدہ سوال ہیں۔ ان پر تادیر بحث ہوتی رہے گی اور ان کے جواب ڈھونڈے جائیں گے۔وضاحتیں بھی سامنے آئیں گی لیکن اس سوال کا جواب بہرصورت قوم کو ملنا چاہئے کہ ہر بڑے بحران پر آئین و قانون کی پامالی کا تاثر کیوں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال نے ماضی میں بھی پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں اس تاثر کو زائل محفوظ کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔تمام ریاستی ادارے اور ان کے سربراہان یا عہدیداران اپنے مناصب کے لیے آئین پاکستان کے مرہون منت ہیں۔ اسی قومی دستاویز کے اندر دیئے گئے اختیارات کے پابند ہیں۔ ان اختیارات کے دائرے سے باہر نکل کر کوئی اقدام یا پالیسی کا اجراءپورے نظام مملکت و ریاست کی جڑیں ہلا دینے کے مترادف ہے۔
یہاں میں یہ بات کہنا اپنا صحافتی فرض سمجھتا ہوں کہ اس سارے معاملات میں عوام کہاں ہیں کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ عوامی مسائل کیا ہیں،غریب عوام کے بچے مروانے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کا کیا قصور ہے ہمارے لیڈران علماءاور افواج پاکستان اپنے حصے کا پیسہ اپنے مطالبات منوا کر گھر بیٹھ جاتے ہیں مگر جو غریب مارا جاتا ہے چاہے وہ پولیس والا ہو یا کوئی ایک ہزار روپے پر دیہاڑی پر لایا ہوا مزدور اس کا کیا قصور تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button