پاکستانی ایوانوں میںبقا کی جنگ اور حقیقت حال
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے بیان کو غیر ذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے فوجی کمان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس سے ارتعاش پیدا ہو گا۔ ترجمان کے مطابق سعد رفیق کا بیان غیر ارادی نہیں لگتا ، فوج میں کوئی سرکش(روگ) عنصر موجود نہیں ہے۔ اس پرسعد رفیق کا کہنا ہے کہ غیر ذمے دارانہ بیان نہیں دیا ، مطلب غلط نکالا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تقریر فی البدیہ تھی ، لکھی ہوئی نہیں تھی۔ لیکن اس کے چند جملوں کو توڑ مروڑکر پیش کیا گیا ، ان کی پوری تقریر سنی جائے۔ اب یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ کسی کی بھی تقریر پر اعتراض کیا جائے تو وہ یہی کہتا ہے کہ اس کے فرمودات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ورنہ اس کا مقصد یہ نہیں تھا۔
ہو سکتا ہے کہ دو ایک دن میں جنرل پرویز بھی یہی فرمائیں کہ ان کا مطلب وہ نہیں تھا جو لیا گیا ہے۔ویسے تو حکمران مسلم لیگ اور فوج و عدلیہ میں الزامات کا تبادلہ اس وقت سے ہو رہا ہے جب سے گزشتہ جولائی میں وزیراعظم نواز شریف کو عدلیہ کے حکم پر ان کے منصب سے فارغ کیا گیا لیکن۔
یہ نیا جھگڑا خود سابق آمر پرویز مشرف کا پیدا کردہ ہے جنہوں نے گزشتہ بدھ کو بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”فوج میں موجود روگ(ROGUE) یا سرکش عناصر بے نظیر بھٹو کے قتل کے پیچھے ہو سکتے ہیں“۔
ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ میں موجود”روگ“ عناصر اس قتل کے حوالے سے طالبان عسکریت پسندوں سے رابطے میں تھے؟
تو جنرل پرویز کا جواب تھا کہ ”اس کا امکان ہے ‘ہاں در حقیقت ایسا ہی تھا کیونکہ معاشرہ مذہبی خطوط پر تقسیم ہے “۔
پرویز مشرف نے اس فوج کو روگ یا بد معاش قرار دیا ہے جس کی وہ طویل عرصے تک سربراہی کرتے رہے ہیں اور اسی کے بل پر مارشل لا لگا کر9 برس تک بلا شرکت غیرے حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ انہی کے دور میں امریکا پوری پاکستانی فوج کو روگ یا بد معاش قرار دے چکا ہے۔فوج کے ترجمان سعد رفیق کے بیان کی گرفت کرنے کے بجائے اپنے سابق باس کی خبر لیتے جن کا بیان زیادہ غیر ذمے دارانہ بلکہ شر انگیز ہے۔ مگر اس سے تو آصف غفور یہ کہہ کر نکل لیے کہ وہ پرویز مشرف کے ترجمان نہیں بلکہ موجودہ سالار افواج کے ترجمان ہیں۔ اگر پرویز مشرف کا بیان سیاسی نوعیت کا تھا اور اس لیے اس پر تبصرہ زیب نہیں دیتا تو خواجہ سعد رفیق کا بیان بھی سیاسی ہے۔ فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے چین آف کمانڈ کو نشانہ بنایا لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے پاک فوج پر اتنا بڑا الزام لگا دیا کہ اس میں بد معاش یا سرکش عناصر موجود ہیں اور ان کے رابطے طالبان سے تھے۔
”گویا ان دونوں نے مل کر بے نظیر کو قتل کروایا“
سوال یہ ہے کہ اس وقت پرویز مشرف کیا کر رہے تھے۔ وہ اس فوج کے سالار تھے ، یہ ان کی ذمے داری تھی کہ روگ عناصر کو لگام ڈالتے۔ گزشتہ دس برس میں تو ان کا موقف یہی رہا ہے کہ بے نظیر کے قتل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں اور یہ کام طالبان نے کیا ہے۔اب انہوں نے اس میں اپنی ہی فوج کو ملوث قرار دے دیا۔ سعد رفیق پر تو یہ الزام ہے کہ انہوں نے چین آف کمانڈ کو نشانہ بنایا لیکن اس چین کے سابق کمانڈر نے تو پوری فوج ہی کو مشکوک قرار دے دیا ہے ، تشویش تو اس پر ہونی چاہیے۔ فوج کے ترجمان نے کہا تو ہے کہ فوج میں کوئی سرکش (روگ) عنصر موجود نہیں ہے لیکن پرویز مشرف کے انکشاف کی روشنی میں یہ بات یقین سے کیسے کہی جا سکتی ہے۔ اسی اثنا میں شہید بی بی کے فرزند بلاول نے کھل کر الزام لگایا ہے کہ ان کی والدہ کے قاتل پرویز مشرف ہیں لیکن انہی کے والد گرامی نے اسی مشرف کوگارڈ آف آنر کے ذریعے ر±خصت کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمن ملک‘ جو سانحے کے وقت بے نظیر کے ساتھ تھے ، انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ بے نظیر کا ایک قاتل اب بھی افغانستان میں موجود ہے۔ عبدالرحمن ملک نے قتل کی ذمے داری طالبان پر ڈالی ہے ، پرویز مشرف پر نہیں۔ بلاول زرداری کو اپنی پارٹی کے اس رہنما سے تفصیلات معلوم کرنی چاہیں ورنہ ان کا بیان محض ایسا الزام سمجھا جائے گا جس کا کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں۔ بلاول کی الزام تراشی پر پرویز مشرف نے رد عمل دیا ہے کہ وہ پہلے مرد توبن جائیں اور عورتوں کی طرح الزامات نہ لگائیں۔ ظاہر ہے کہ بلاول میں ابھی لڑکپن ہے اور جب وہ بڑا ہو جائے گا تو ممکن ہے کہ پرویز مشرف کی طرح مکے دکھا دکھا کر تقریر کرنے لگے۔ پرویز مشرف کو بلاول کی عمر کا لحاظ کرنا چاہیے اور اس کو تیار کرنے والوں کو بھی اس پرمزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ غیر ذمے داری سب میں سرائیت کر گئی ہے۔
میں یہاں یہ بات واضح کرنا اپنی صحافتی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ پاک فوج میں ایسے عناصر پہلے بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں جو ”گڈ اور بیڈ“ طالبان کی بنیاد رکھے ہوئے ہیں شدت پسند کسی بھی روپ میں ہو وہ ہمیشہ غلط ہوتا ہے چاہے وہ گڈ ہو یا بیڈ دوسرے کے لیے جو گڑھا کھودا جاتا ہے اس میں ایک دن انسان خود بھی گر سکتا ہے اس لیے ہمارے ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں اور گڈ اور بیڈ کی اس بیماری سے نکلیں ایسا نہ ہو کہ یہ لا علاج ہو جائے۔