نوجوان بلاول بھٹو کی کامیاب انتخابی مہم
ہفتے کی دوپہر کو کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد اس حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر آئی جی سندھ نے ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔اس کے علاوہ تحقیقاتی کمیٹی نے راو¿ انوار کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی بھی تجویز دی ہے۔تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر ہی ایس پی انویسٹی گیشن ایسٹ محمد الطاف سرور ملک کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جمعے کو پاکستان کے چیف جسٹس نے کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے پر سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس سے سات دن میں رپورٹ طلب کی تھی۔ ادھر محکمہ ِ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق نقیب اللہ محسود کے خلاف راو¿ انوار کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف کراچی، پشاور سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے شدت پکڑ گئے۔
یاد رہے کہ ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا۔تاہم سوشل میڈیا پر نقیب اللہ محسود کے قتل پر بحث شروع ہو گئی۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ بظاہر نقیب اللہ محسود کا کسی شدت پسند تنظیم سے تعلق نہیں تھا اور وہ ماڈلنگ کے شعبے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں نقیب اللہ کے کزن نور رحمان نے ڈی آئی خان سے ٹیلیفون پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ‘نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ میں شیر آغا ہوٹل سے دو اور تین جنوری کی شب سادہ کپڑوں میں اہلکاروں نے اٹھایا تھا، جس کے بارے میں انھیں چار روز کے بعد معلوم ہوا‘۔ ادھر ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار کا کہنا ہے کہ ‘نقیب اللہ نے نسیم اللہ کے نام سے شناختی کارڈ بنا رکھا تھا اور وہ مطلوب ملزم تھا جو ڈیرہ اسماعیل خان سے آکر حب میں رہتا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ‘اس نے نسیم اللہ کے نام سے کیوں شناختی کارڈ بنایا تھا اور جن جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا ہے وہ ان کے ساتھ کیا کرنے آیا تھا؟ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار کا کہنا ہے کہ ‘نقیب اللہ کراچی میں ابو الحسن اصفہانی روڈ پر کپڑے کی دکان میں 70 یا 80 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا۔ یہ پیسے کہاں سے آئے جبکہ رشتے دار کہتے ہیں کہ وہ فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ فیکٹری میں آخر کتنی تنخواہ ملتی تھی جس میں سے وہ فیملی کو بھی دیتا تھا اور جمع بھی کرتا تھا؟’نقیب اللہ کے اہل خانہ کے مطابق مقتول کے تین بچے ہیں جن کی عمریں دو سے نو سال کے درمیان ہیں اور یہ بچے ان دنوں اپنے ننھیال ڈی آئی خان آئے ہوئے تھے۔یہ امر پیش نظر رہے کہ نقیب اللہ کا تعلق وزیرستان سے تھا اور وزیرستان کا کوئی بھی شہری اس وقت تک پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں نہیں آباد ہو سکتا جب تک نفاذ قانون اور حساس اداروں کے افسران اس کے جملہ کوائف کی باریک بینی سے چھان بین نہیں کر لیتے۔ اس عمل کے بعد ہی وزیرستان کے کسی شہری کو وطن کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ نقیب اللہ کے پاس وطن کارڈ تھا جو اس امر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ اس کا کسی بھی دہشت گرد ، تخریب کار یا جرائم پیشہ گینگ سے سرے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کراچی پولیس کے راو¿ انوار شاید واحد رینکر افسر ہیں جو کسی ضلع کی سربراہی کر رہے ہیں۔ راو¿ انوار 1980ءکی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔1992 میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راو¿ انوار اس میں بھی پیش پیش تھے، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں راو¿ انوار ایکس پاکستان لیو پر چلے گئے اور یہ عرصہ انھوں نے دبئی میں گذارا بعد میں انہوں نے بلوچستان کو جوائن کیا۔ وہ گزشتہ 10برسوں سے ضلع ملیر ہی میں تعینات رہے۔ انہیں ایک سے زائد بار معطل کیا گیا لیکن بعدازاں اعلیٰ ترین سیاسی شخصیات کے دباﺅ پر انہیں کلین چٹ دے دی گئی۔ ان کا عمومی تعارف پولیس مقابلہ فیم افسر کا ہے دوسرے لفظوں میں ان کو ” سندھ کا عابد باکسر“ کہا جا سکتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وردی کسی بھی افسر یا اہلکار کو کسی سنگین ترین جرم میں بھی ملوث شہری کو ماورائے عدالت قتل کی اجازت دیتی ہے یا یہ باوردی قانون کے نفاذ کے دعویدار افسران و اہلکاران ازخود ہی صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے لائسنس ٹو کل حاصل کر لیتے ہیں۔ کسی بھی شخص کو زندان میں ڈال سکتے ہیں ؟ کیا یہ اتنے انسانیت سوز جرم کے باوجود یہ اپنے مناصب پر اس لئے برقرار رہتے ہیں کہ انہیں اعلیٰ شخصیات اور نادیدہ قوتوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔
شہری حلقوں کا مطالبہ ہے کہ راﺅ انوار کو اب اس کے جرائم کی سزا ملنا چاہئے۔ نیز اس امر کا بھی کھوج لگانا چاہئے کہ آخر پولیس مقابلہ فیم پولیس افسران اندرون ملک اور بیرون ملک بیش قیمت کروڑوںکے اثاثوں کے مالک کیوں بن جاتے ہیں جبکہ ان کی تنخواہ اتنی نہیں ہوتی۔ اگر نقیب اللہ کا یہ جرم تھا کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ اس کے پاس 70 یا 80 لاکھ کی رقم کہاں سے آئی تو کیا ماورائے عدالت شہریوں کو قتل کرنے والے قانون کے نفاذ کے ذمہ دار اداروں کے یہ افسران اندرون اور بیرون ملک کروڑوں کے اثاثوں کے مالک کیسے بن گئے۔ ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب ہے ؟عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا چاہئے۔اور پورے پاکستان میں اس کا اطلاق ہونا چاہئے اور ان کیسز کی تحقیقات بھی ہونی چاہئے جس میں کئی بے گناہوں کو دن دیہاڑے اغوا کر کے اور جعلی پولیس مقابلوں میں مروا دیا جاتا ہے یا تشدد کا نشانہ بنا کر دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے ۔ ان اوچھے ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے من پسند افسران کو اپنے علاقوں میں تعینات کروا کر،کبھی کسی بے گناہ کو سیاسی مخالفت اور کبھی ذاتی عناد کی بنا پر ماورائے عدالت قتل کرواکر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو۔خدارا اب باز آ جاﺅ اس کھلاواڑ سے یہ نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور خلق خدا تمھارے خلاف علم بغاوت بلند کر دے۔