Tayyab Mumtaz

زینب قتل کیس: قاتل کو سزائے موت

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مسلسل چار دن تک زینب قتل کیس کی سماعت کر کے ساتویں دن ملزم عمران علی کو 4 بار سزائے موت 32 لاکھ روپے جرمانہ اور عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔ اس طرح مقتولہ زینب کو پہلے مرحلے میں انصاف مل گیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہفتہ کے روز کوٹ لکھپت جیل میں جہاں اس کیس کو سنا گیا تھا اپنا فیصلہ سنایا۔ فیصلہ سننے کے لیے زینب کے والد امین بھی کوٹ لکھپت جیل میں موجود تھے۔ فیصلہ کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ، لاش گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر سات سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا بھی سنائی گئی۔ ملزم کو مقتولہ کے خاندان کو دس لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملزم کے پاس ہائیکورٹ میں اپیل کرنے کے لیے پندرہ دن کا وقت ہے جبکہ سپریم کورٹ سے اپیل مسترد ہونے کے بعد وہ صدر سے رحم کی اپیل کرنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ مجرم عمران نے عدالت میں زینب اور دیگر سات بچیوں سے زیادتی اور قتل کا اعتراف کیا تاہم ابھی صرف زینب کے قتل کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔ دیگر سات بچیوں کے مقدمات کا ٹرائل ابھی جاری ہے۔ ٹرائل کورٹ اب سزا کی توثیق کے لیے ریکارڈ ہائیکورٹ کو بھیجے گی جہاں دو رکنی بنچ ملزم کی اپیل سنے گا۔ ہائیکورٹ انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت سات دن میں اپیل کا فیصلہ کرنے کی پابندی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سائنٹیفک تحقیق کی بنیاد پر مجرم کو سزا دی جارہی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا ہے کہ مجرم کو شفاف ٹرائل کا مکمل حق دیا گیا اور اعتراف جرم کے بعد بھی عدالت نے مجرم کو سوچنے کے لیے چالیس منٹ دیئے۔ پراسیکیوٹر کے مطابق ملزم نے 9 بچیوں سے زیادتی کی جبکہ 7 کو قتل کیا گیا 2 زندہ ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ باقی مقدمات کے گواہ اور شواہد الگ ہیں جن کی کارروائی ابھی چلے گی اور 10 سے 15 دن میں تمام کیسوں کا فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ مجرم کو کیسے اور کہاں سزا دینی ہے اس کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام نہیں بلکہ یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ عمران علی کو انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا دی گئی ہے انسداد دہشت گردی کے قانون کی شق 22 کے تحت حکومت جہاں جرم وقوع پذیر ہوا ہو مجرم کو وہاں سزا دے سکتی ہے۔ مجرم عمران نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ میں نے ننھی بچیوں پر بہت ظلم کیا اور میں معافی کے بھی لائق نہیں۔ سات روز میں فیصلہ ہو جانے والا یہ پہلا کیس ہے۔ عدالت نے چار دن اوسطاً گیارہ گیارہ گھنٹے تک سماعت کی مجرم کو 4 بار سزا کے موت دی گئی ہے جس پر مقتولہ کے والدین نے اطمینان کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ مجرم کو سرعام تختہ دار پر لٹکایا جائے۔ زینب کی والدہ نے کہا کہ مجرم کو سر عام پھانسی دی جائے جہاں سے ہماری بچی کو لے کر گیا تھا اسے وہیں پھانسی دی جائے۔ پاکستان میں مقدمات طویل عرصے تک زیر سماعت رہتے ہیں تاہم زینب قتل کیس میں ریکارڈ وقت میں تمام کام ہوئے۔ مقدمے کا چالان پیش ہوا۔ عدالت نے سماعت شروع کی شہادتیں قلم بند ہوئیں۔ پراسیکیوشن نے شواہد پیش کیے۔ گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے اور عدالت نے مقررہ وقت سے پہلے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ دیگر مقدمات میں تاخیر کیوں ہوتی ہے۔ اگر زینب کیس کا فیصلہ سات دن سے پہلے ہو سکتا ہے تو دیگر فوجداری مقدمات میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔ چالان پیش ہونے کے بعد پولیس اور وکلاءکوشش کریں تو مقدمات جلا نمٹائے جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستان لاءکمیشن کو اس معاملے میں اہم اور دورس فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس کیس میں سائنٹیفک شہادتیں قبول کی گئیں۔ ان کو تمام مقدمات میں قبول کرنا چاہیے۔ اب ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ مجرم کی اپیلوں کا فیصلہ مقررہ مدت میں کر کے اس کی سزا پر عمل درآمد کو جلد از جلد ممکن بنانا چاہیے۔ پراسیکیوشن کا محکمہ مجرم کے خلاف دیگر مقدمات کا بھی جلد فیصلہ کرے۔ اس کیس میں عوام میڈیا اور مقامی لوگوں نے بھرپور کردار ادا کیا مگر پولیس نے جس انداز میں اس کیس کی تفتیش کی وہ بھی مثالی ہے اور پنجاب فرانزک لیب میں ہونے والے ڈی این اے نے آخر کار مجرم کی گرفتاری ممکن بنائی۔ بروقت چالان پیش کیا گیا۔ گواہوں کی گواہی لی گئی اور عدالت نے بھی 13، 13 گھنٹے سماعت کر کے اس کیس کو نمٹایا یہ تمام صورت حال جرائم کے تدارک کے لیے بہت اہم ہے۔ اس قتل سے بعض سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ان کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔ صوبہ خیبر پی کے میں متعدد کیس ہوئے ایک واقعہ کا مرکزی ملزم پکڑا گیا مگر دیگر واقعات کے ملزم گرفتار نہیں ہو سکے۔ اس قتل پر تنازع کھڑا کر کے صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی مگر صوبائی حکومت اور اس کے محکموں نے پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے نہ صرف مجرم کو پکڑا بلکہ سات دن میں مقدمے کا فیصلہ لے کر کامیابی حاصل کی۔ اب مجرم کی اپیلوں کے بعد اس کی سزا پر عمل درآمد سر عام کرنے کا مطالبہ ہے۔ اس بارے میں حکومت کو مکمل اختیار حاصل ہے اس لیے حکومت کو کسی دباو¿ کا شکار نہیں ہونا چاہیے اسلام میں بھی بعض سزاو¿ں کو سر عام انجام دینے کا حکم ہے۔ سعودی عرب میں قاتلوں کو سرعام سزا دی جاتی ہے۔ زینب قتل کیس سے عوام میں جو دہشت پیدا ہوئی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ملزم کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے تا کہ اس طرح کی حرکت کا سوچنے والے بھی عبرت پکڑیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button