چاچا رحمتہ جی کچھ نظر کرم ان پر بھی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ کیس سمیت بہت سے مقدمات جو آئین کی شق جو 184/3 کے تحت دائر کیے گئے سماعت کے بعد نمٹا دیے ہیں۔ ان فیصلوں کے بعد ملک میں سیاسی حدت بڑھ گئی ہے۔ تاہم ابھی تک کچھ کیس عدالت میں موجود ہیں۔ کچھ کیسوں میں عدالت عظمیٰ نے فیصلے محفوظ کر رکھے ہیں۔ ملک میں انصاف کی جلد، بر وقت اور درست فراہمی کو یقینی بناناریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں تحصیل اور ضلعی سطح پر عدالتوں کا مکمل اور فعال نظام موجود ہے۔ اس کے بعد ہائیکورٹ چاروں صوبوں میں اور وفاق کی سطح پر سپریم کورٹ انصاف کی فراہی کی ذمہ داری اٹھا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ خصوصی عدالتیں، بینکنگ کورٹس، نئی کرپشن کورٹس، نیب عدالتیں، صارف عدالتیں اور دیگر خصوصی عدالتیں موجود ہیں۔ پاکستان میں وکلاءہر سطح کی عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کے لیے پیش ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات کا جلد فیصلہ نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 38 ہزار مقدمات زیر التواءہیں۔ اسی طرح ہائیکورٹ، ضلعی، تحصیل اور خصوصی عدلتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں۔ پاکستان میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ایسا معاملہ ہے جس پر اعلیٰ عدلیہ کئی بار ہدایات دے چکی ہے مگر تاحال مقدمات میں تاخیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انصاف کی تاخیر سے فراہمی در اصل انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ انصاف وہ ہوتا ہے جو نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔ انصاف میں تاخیر انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی مقدمات کی وجہ سے عام شہریوں کے مقدمات کو اہمیت نہیں مل رہی اور لاکھوں مقدمات سالہا سال سے زیر التوا ءہیں۔ عدلیہ کی توجہ ان مقدمات کو نمٹانے پر مرکوز کی جانی چاہیے اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث بننے والی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں لاءکمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے تاہم اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ چیف جسٹس مسٹر ثاقب نثار نے لاءکمیشن آف پاکستان کا اجلاس طلب کر کے مقدمات کی جلد سماعت اور اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی و خصوصی عدالتوں میں زیر التوا ءلاکھوں مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے حوالے سے بعض فیصلے کیے۔ اب ان فیصلوں پر عمل کرنے اور اس پر عمل درآمد کی نگرانی ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں مقدمات کی سماعت میں مزید تاخیر نہ ہو۔ اس حوالے سے لاءکمیشن کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہو گی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں تاہم اس کی مسلسل نگرانی اور فعالیت انتہائی ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کو اب ان سیاسی مقدمات سے چھٹکارا پانا چاہیے جن کا ہدف سیاستدان ہوتے ہیں۔حال ہی میں ایل این جی منصوبے پر وزیر اعظم عباسی کے خلاف دائر پٹیشن کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کے لیے منظور کرنے کی بجائے مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کو حکم دیا تھا کہ وہ اس بارے میں اگر شواہد رکھتا ہے تو متعلقہ تفتیشی ادارے سے رجوع کرے اور وہاں جا کر درخواست دے کیونکہ اس معاملے میں تحقیقات کرنا ہمارا کام نہیں۔ اگر کوئی بے ضابطگی ، بد عنوانی یا بے قاعدگی ہوئی تو ذمہ دار تفتیشی ادارہ اس کی تفتیش کر کے متعلقہ عدالت میں کیس دائر کرے گا۔ سپریم کورٹ اگر زیر التوا ءکیسوں کو نمٹانے، ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں میں موجود مقدمات جلدنمٹانے کی پالیسی پر عمل درآمد کر کے ان کی سماعت اور نمٹانے میں تیزی لانے میں کامیاب رہتی ہے تو اس سے ملک میں انصاف پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا اور عدالتوں کے احترام میںاضافہ ہو گا۔ 18 لاکھ سے زائد کیس زیر التواءہونا نہایت سنگین معاملہ ہے۔ اس سے مراد ہے کہ ایک کیس دس افراد سے بھی متعلق ہو تو ملک کی تقریباً دس فیصد آباد ی کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ چیف جسٹس لاکھوں افراد کے اس مسئلے کو ترجیحی طور پر لیں اور اس ضمن میں تیز رفتاری سے کام کرائیں۔