بادشاہ یا بادشاہ گر
مسلم لیگ (ن) کی سیاست کے تیسرے دور کا آغاز ہورہا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات‘ اس کے نتائج‘ اس تیسرے دور کا نکتہ آغاز ہیں ۔ البتہ عام انتخابات کی مہم الیکشن کے نتائج آئندہ حکومتی سیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی سمت کا تعین کریں گے۔ اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ مسلم لیگ پاکستان کے سیاسی مستقبل میں کس مقام پر کھڑی ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کو ایڈوانٹیج ہوگا کہ اس کے پاس نواز شریف‘ شہباز شریف کی شکل میں مقبول عام قائدین موجود ہیں۔ مریم نواز شریف کی صورت میں تازہ لیڈر شپ میسر ہے جو نہایت تیزی سے مقبولیت کی سیڑھیاں پھلانگ رہی ہیں۔ حمزہ شہباز شریف جو اپنے والد کے نائب کے طور پر پنجاب کے سیاسی خاندانوں کے ساتھ ڈیلنگ کا تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے سردوگرم چیدہ سیکنڈ لائن کیڈر ہے جس میں راجہ ظفر الحق سے لے کر خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ سردار مہتاب خان عباسی‘ اقبال ظفر جھگڑا‘ جنرل (ر) عبدالقادر سمیت ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو عوامی سطح پر بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں اور پس پردہ فیصلہ ساز قوتوں تک بھی رسائی رکھتے ہیں۔ اپنے تاریخی پس منظر‘ پاکستان سیاست میں سرگرم کردار اور اپنی مقبولیت کی وجہ سے کاروبار ریاست میں مسلم لیگ اس کا نام کوئی بھی ہو اس کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جلد یا بدیر مسلم لیگ (ن) اور اس کے ساتھ اختلاف رائے رکھنے والی قوتیں کسی مشترکہ نقطے پر متفق ہوجائیں گی۔ مچھلی اور پانی زیادہ دیر تک ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتے۔ مسلم لیگ (ن) اور اقتدار کے کھیل میں شریک قوتیں ایک روز اکٹھی نظر آئیں گی۔ اس وقت بھی خارجہ پالیسی‘ دفاع‘ انسداد دہشت گردی ایسے قومی بیانیوں پر اتفاق رائے موجود ہے۔ نواز شریف نے 1983ءمیں ایک نو وارد کے طور پر سیاست میں صوبائی وزیر کے طور پر انٹری ڈالی۔ وہ قسمت کے دھنی ہیں۔ اس انٹری کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ آگے بڑھتے رہے اور منزلیں یکے بعد دیگرے سر ہوتی رہیں۔ وہ پہلے راہ راست الیکشن کے بعد پنجاب کے چیف منسٹر بنے۔ گو کہ وہ غیر جماعتی الیکشن تھا لیکن اس غیر جماعتی نظام کے اندر سے مسلم لیگ نکلی۔ نواز شریف صوبائی سطح تک محدود تھے لیکن جماعتی سطح پر ان کا گروپ حاوی ہوتا چلا گیا۔ بڑے بڑے جغادری مسلم لیگی محض نام ہی کے عہدیدار تھے۔ نواز شریف نے نو وارد ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے طوفانی ریلے کا مقابلہ کیا۔ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے مسلم لیگ کو آئی جے آئی بنا کر دی گئی۔ آئی جے آئی میں غلام مصطفی جتوئی‘ قاضی احسین احمد جیسے لیڈر بھی تھے لیکن فیصلے نواز شریف کے اشارہ ابرو پر ہوتے تھے۔ نواز شریف 1990ءمیں پیپلز پارٹی کو ہرا کر اور آئی جے آئی میں اپنے رفقاءکار کو ناک آﺅٹ کرکے وزیراعظم بن گئے لیکن وہ جلد ہی اپنے مربی اسحاق خان کی سیاسی شفقت سے محروم ہوگئے۔ پیپلز پارٹی غلام اسحاق سے مل گئی۔ مسلم لیگ کے اندر نقب لگی۔ اسی دوران نواز شریف نے پہلی مرتبہ تمام سیاسی بوجھ اتار پھینکنے کا فیصلہ کیا۔ ایف ایٹ میں اس وقت کے ڈپٹی سپیکر حاجی نواز کھوکھر کے گھر کے باہر خالی گراﺅنڈ میں مسلم لیگ (ن) بن گئی۔ نواز شریف اس کے سربراہ‘ بحیثیت سربراہ مسلم لیگ نواز شریف کی سیاست کا یہ پہلا دور تھا۔ انہوں نے ڈکٹیشن نہ لینے کا نعرہ لگایا۔ عوام نے اس نعرے کو پذیرائی دی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹرف پر پیش قدمی کی۔ پیپلز پارٹی پیچھے ہٹتی گئی۔ یہ پسپائی آج بھی جاری ہے۔ اس دور میں انہوں نے پیپلز پارٹی کو ٹکنے نہ دیا اور 1997ءمیں ایک مرتبہ پھر پرائم منسٹر بن گئے۔ اس مرتبہ وہ دو تہائی اکثریت سے آئے تھے۔ صدر ان کی اپنی جماعت کا تھا۔ چاروں صوبوں میں ان کی اپنی حکومت‘ آرمی چیف انہوں نے اپنی مرضی کا تعینات کیا۔ بظاہر دور‘ دور تک کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ اٹھاون ٹو بی جیسی جمہوریت کش ترمیم بھی اپنی موت آپ مر چکی تھی۔ پاکستان جیسے ارتقائی عمل سے گزرتے ملک میں معاملات کبھی بھی سازہ نہیں ہوتے خاص طور پر جب حالات بہت سادہ نظر آرہے ہوں تب بھی نہیں۔ تاریخ فی الحال اس بات کا تشفی بخش جواب تلاش نہیں کرسکی کہ نواز شریف اور پرویز مشرف کے مابین اختلافات کیا تھے۔ بظاہر تو کارگل ہی وجہ نزاع بنا۔ بہرحال پاکستان میں 12 اکتوبر 1999ءکو تیسرا اب تک کا آخری مارشل لاءلگ گیا۔ اس مارشل لاءکے بعد نواز شریف کی سیاست کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہ ابتلا کا دور تھا۔ اگلے لمحے کا بھی پتہ نہ تھا۔ نواز شریف کو پارٹی قیادت سے محروم کردیا گیا۔ اگلے مرحلے میں ان کو خاندان کے ہمراہ جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا۔ 2002ءمیں منعقدہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو سترہ نشستیں حاصل ہوئیں۔ مسلم لیگ کے اندر سے سیٹ ٹیوب بے بی پیدا کیا گیا جن کا نام مسلم لیگ (ق) رکھا گیا۔ پرویز مشرف نے بڑھک ماری کہ وہ نواز شریف‘ بے نظیر دونوں کو پاکستان واپس نہیں آنے دیں گے۔ چند سال بھی نہ گزرے تھے کہ وہی مشرف بے نظیر بھٹو کے ساتھ خفیہ معاہدے پر مجبور ہوا۔ اسی دوران نواز شریف کمزور پڑے پرویز مشرف کی مرضی کے خلاف سعودی حرب سے برطانیہ منتقل ہوگئے۔ یہ نواز شریف کی وطن واپسی کی جانب پہلا قدم تھا۔ پرویز مشرف بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کا راستہ نہ روک سکا۔ نواز شریف اور بے نظیر وطن لوٹے۔ بے نظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کی جانب بڑھتے قدم دیکھ کر ان کو قتل کردیا گیا۔ نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے مرکز میں اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی۔ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو سیاسی سپیس دی اور ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جس کو کچھ دنوں بعد دس سال مکمل ہوجائیں گے۔ پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور گزرا تو ایک مرتبہ پھر الیکشن ہوئے۔ اس دوران پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھری جا چکی تھی۔ بہرحال 2013ءکے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو بھرپور مینڈیٹ ملا۔ نواز شریف تیسری مرتبہ پرائم منسٹر بنے۔ اس پانچ سالہ دور کی کارکردگی اس کالم کا موضوع نہیں۔ پاکستان میں پاپولر سیاست کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ عدالتی فیصلوں پر تنقید قلمکار کا مینڈیٹ نہیں۔ بہرحال عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں نواز شریف اب پارٹی قیادت کے بھی اہل نہیں۔ فیصلوں کی تلوار بھی سروں پر لٹک رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سیاست چوبیس سال سے نواز شریف کے گرد گھوم رہی ہے۔ نواز شریف کی سیاست کے تیسرے دور کا آغاز ہورہا ہے۔ اب وہ بادشاہ کی بجائے بادشاہ گری کریں گے۔