سینیٹ میں شیری رحمن کا انتخاب اور دو خواتین سے زیادتی
پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون سینیٹر شیری رحمن سینیٹ کی پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر منتخب ہو گئیں۔ چیئرمین سینٹ کی ہدایت پر ان کے اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ وہ سینیٹ میں 12ویں قائد حزب اختلاف اور پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر ہیں۔ شیری رحمن کو 34 ارکان سینیٹ کی حمایت حاصل تھی جب کہ تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی صرف 19 ارکان کی حمایت حاصل کر سکے۔ اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے کے بعد شیری رحمن نے اپنا عہدہ اور دفتر سنبھال لیا۔ شیری رحمن کے بطور اپوزیشن لیڈر تقرر کے لئے بھجوائی جانے والی نامزدگی پر 34 سینیٹروں کے دستخط تھے۔ وہ امریکہ میں بطور سفیر پاکستان خدمات انجام دے چکی ہیں۔ وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کی دیرینہ رکن ہیں اور اپنی تمام سیاسی زندگی پیپلز پارٹی میں رہ کر گزاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے سینیٹر شیری رحمن کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ آصف زرداری نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ آئین اور انسانی حقوق کا دفاع کرتی رہیں گی۔ آصف زرداری نے حزب اختلاف کے ان سینیٹروں کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے شیری رحمن کی حمایت کی۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شیری رحمن نے اپوزیشن چیمبر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف نامزد کرنے پر پارٹی قیادت کی شکرگزار ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلوں گی۔ شیری رحمن نے کہا کہ حکومت پر پالیسیوں کے حوالے سے دباﺅ بڑھائیں گے۔ حکومت کو جواب دہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم وفاق کو مستحکم کریں گے۔ امید ہے پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی ہمارے ساتھ کھڑی ہو گی۔ شیری رحمن نے امریکہ کے سمتھ کالج سے تعلیم حاصل کی بعدازاں یونیورسٹی آف سیسکس سے پولٹیکل سائنسز اور آرٹ ہسٹری میں گریجویشن کی۔ نومنتخب 17 آزاد سینیٹر حکومتی اور 11 سینیٹرز اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے۔ مارچ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد شروع ہونے والا سلسلہ شیری رحمن کے بطور اپوزیشن لیڈر تقرر کے بعد مکمل ہو گیا ہے۔ اب صرف حکومتی جماعت نے قائد ایوان کا تقرر کرنا ہے جس کے بعد ایوان بالا کی تکمیل ہو جائے گی۔ سینیٹ کے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں اور ارکان نے اپنی اپنی حکمت عملی کے تحت اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ بلوچستان کے 6 آزاد ارکان کے گروپ نے حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کے تعاون سے چیئرمین سینیٹ منتخب کرا لیا۔ پیپلز پارٹی نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور قائد حزب اختلاف کی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تاہم پاکستان تحریک انصاف اس سارے عمل میں کوئی نشست حاصل کرنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ اسے پیپلز پارٹی کو بھی ووٹ دینا پڑا جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر سے بھی نکتہ چینی ہو رہی ہے اور مخالفین بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان تمام عوامل کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن اور اس کے اہم عہدوں پر انتخاب کا سلسلہ مکمل ہو گیا ہے اور ایک شک ان انتخابات کے انعقاد پر اٹھ رہا تھا ختم ہو گیا قوم توقع رکھتی ہے کہ اب انتخابات بھی منعقد ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری عمل جاری رہے گا۔ انتخابات کے بعد مرکزی و صوبائی حکومتیں قائم ہو کر ملک کی تعمیروترقی کے کام کو آگے بڑھائیں گی۔ مگر یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ کسی خاتون کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بن جانے سے ان خواتین کے مسائل حل ہو جائیں گے ۔ابھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں دو لڑکیوں سے پنچائیت کے حکم پر زیادتی کی گئی ہے۔ پاکستان میں عدالتی نظام نہ ہونے کے برابر، ظلم ،سیاسی مخالفین کی تذلیل ، خصوصاً خواتین کو حراساں کیا جانا ، بچیوں کی تعلیم کی مخالفت ، خواتین کو سکول کالج اور دفاتر میں پریشان کرنا جیسے سنگین معاملات شامل ہیں ، کیا شیری رحمٰن کے اپوزیشن لیڈر بن جانے سے ان خواتین کے مسائل اور پرابلمز کم ہوں گی۔ ان تمام باتوں کا جواب جو مجھ جیسے انسان کے ذہن میں آتا ہے وہ نفی میں ہے ، خدارا ان خواتین کی عزت کرو جن کو بنی ﷺ نے ماں ،بہن ،بیوی، اور بیٹی کا درجہ دیا ہے اگر ہم ایسا کر لیں تو شاید ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے۔