آزادی صحافت کس کےہاتھ پر لہو تلاش کروں
ممٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
نصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
پاکستان دنیا میں بھر میں صحافیوں کے لیے خطرناک ملک بن چکا گزشتہ کئی سال سے آزادی صحافت پر کئی قدغن لگائی گئیں ،کئی میڈیا ورکرز اور صحافی اپنا فرض انجام دیتے ہوئے ہلاک کر دیئے گئے، طالبان ہوں ، مذہبی جنونی ہوں ،سیاستدان یا ایجنسیاں کسی کے خلاف بھی خبر شائع کرنے ، حقائق منظر پر لانے کی پاداش میں کئی لاپتہ ہوئے، کئی ہلاک اور کئی میڈیا ورکرز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سب کا آسان ٹارگٹ یہ نہتے میڈیا ورکرز اور صحافی ہیں جس کا دل چاہتا ہے ان پر اپنی دھونس چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد میں مطیع اﷲ جان کو کشمالہ طارق کے دفتر میں حبس بے جا میں رکھا گیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ آج سمبڑیال میں “نوائے وقت” سے وابستہ صحافی ذیشان بٹ کا دن دہاڑے قتل کر دیا گیا اس کا کیا قصور تھا صرف یہ کہ غنڈہ ٹیکس کیخلاف رپورٹ تیار کررہا تھا،ذیشان بٹ کا قتل ن لیگ کے مقامی چئیرمین کی بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، یہ تو ایک یونین کونسل کا چیئرمین ہے اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم صحافی جو کہ حکومت ، ایم پی ایز یا ایم این ایز کیخلاف جب کوئی رپورٹ منظر پر لاتے ہیں تو نہ سرف ہماری بلکہ ہمارے پیاروں اور گھر والوں کی جانوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے پاکستان میں لوکل میڈیا میں کام کرنے والے بہت سے فراد کو اپنے غنڈوں ، بھتہ مافیہ اور فورسز کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ذیشان بٹ کی قتل سے چند لمحے پہلے کی دو کالز جو کہ متعلقہ تھانے اور ڈی ایس پی سے ہوئی کی ریکارڈنگ سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس شخص نے اپنی رپورٹ تیار کرنے کے لیے جب یونین کونسل انفارمیشن لینے کی کوشش کی تو اس کو موقع پر پے درپے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا ۔میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر ہمارے معاشرے کا یہی حال رہا تو کوئی اپنے پروفیشن سے مخلص نہیں رہ سکے گا۔میرے ذہن میں یہاں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیںجو کہ درج ذیل ہیں۔
کہاں تباہ ہوگیا نام نہاد خادم اعلٰی کا ہیلی کاپٹر جو مظلوم کو انصاف دلانے کے لئے سمبڑیال اتر نہیں سکتا؟
کہاں گئی ہماری سیکیورٹی ایجنسیز جو کہ ہوا میں چڑیا کے پر گننے کا دعوی کرتے ہیں۔
بابا رحمتے جی!
آپ کا سو موٹو کیا صرف گندی گلیوں، جنازوں اور میڈیا کی ہیڈ لائنز تک محدود رہے گا یا پھر کسی کو حقیقی انصاف بھی ملے گا؟
ذیشان بٹ کی قتل سے چند لمحے پہلے کی منظر عام پر آنے والی ریکارڈنگ سے اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ وہ رائیونڈ محل مسمار نہیں کر رہا تھا بلکہ مقامی حکومت کی طرف سے لگائے گئے ایک ٹیکس کے بارے معلومات لینے یونین کونسل بیگووالا گیا تھا۔اس بیچارے کو چیئرمین ضلع کونسل سیالکوٹ حنا ارشد وڑائچ کے ساتھ گفتگو کے دوران ہی گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔
یہ حلقہ جناب عزت مآب وزیر خارجہ خواجہ آصف صاحب کا ہے !جناب آپ نے ایک بار اسمبلی میں فرمایا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ھے کوئی حیا ہوتی ھے؟ ھم پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کے پاس بھی ہوتی ھے؟کیا اس ملک میں انصاف مل سکے گا، کیا ہر اس آواز کو دبا دیا جائے گا جو اس کرپٹ نظام کیخلاف اٹھے گی، مظلوموں کے حق میں اٹھے گی ،ان چوروں لٹیروں ، بھتہ مافیہ، قاتلوں ، وڈیروں، کو کبھی سزا مل سکے ،کیا اس ملک خداداد میں کبھی انصاف ہو سکے گا؟
کسی ماں کا جوان بیٹا مار دیا گیا … مگر…. پنجاب پولیس ابھی تک ملزم گرفتار نہیں کر سکی …کر بھی کیسے سکتی ہے وہ حکمران جماعت کا ایک یونین کونسل کا چیئرمین ہے اس کے پاس ہزاروں ووٹ ہیں اس کو سزا دلوانے کا مطلب اس حلقے کی عوام کے ووٹوں سے محرومی ہوسکتا ہے۔ اور ویسے بھی یہ پنجاب پولیس ہو یا کسی بھی دوسرے صوبے کی اس کا اولین مقصد اپنے آقاﺅں کی بجا آوری ہے اسی سے ان کی ترقیاں وابستہ ہیں اور ان کی روزی چلتی ہے ،ان بیچاروں کی تو پوسٹنگ انہی کی آشیرباد سے ہوتی ہے پھر ان کیخلاف قانون حرکت کیسے کرسکتا ہے۔یہ ایک المیہ ہے اور ہمیں اسی کے ساتھ زندہ رہنا ہو گا شاید یہی ہمارا مقدر بن چکا ہے ، آنے والے وقتوں میں کچھ دن تک ہمارے نام نہاد میڈیا چینلز ، سوشل میڈیا پر اس کیخلاف آواز اٹھائیں گے اور پھر ایک لمبی خاموشی شروع ہوجائے گی جب تک کہ کوئی اور ذیشان بٹ ایسے قتل نہیں ہو جاتا۔