نیب کا خاتمہ یا کرپشن کا خاتمہ ،پاکستان کی بقا کس میں؟
سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ ن نوازشریف نے کہا ہے کہ نیب کا قانون ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا کالا قانون ہے۔ یہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے میرے خلاف انتقامی کارروائی کے لئے بنایا تھا۔ ہم اسے ختم کریں گے۔ میں اپنے کیس کے فیصلے تک اسے ختم کرنے کے حق میں نہیں لیکن وزیراعظم کو تجویز دوں گا کہ نگران حکومت کے دوران نئی حکومت کے قیام تک نیب قوانین معطل کریں یا آرڈیننس جاری کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنے لئے ریلیف مانگ رہا ہوں۔ یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان قوانین کا انتخابات میں ناجائز استعمال ہو سکتا ہے۔ تمام اداروں کو حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس بروقت الیکشن کے حوالے سے اپنے بیان پر عمل کر کے دکھائیں۔ احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں نوازشریف نے کہا کہ چیف جسٹس نے جو باتیں کہی ہیں بالکل سچ کہی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ان کو یہ اہتمام کرنا چاہئے کہ سب کے لئے کھیل کا میدان ایک سا ہو اور کسی سے زیادتی نہ ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کسی کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں۔ بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوا اور سینیٹ الیکشن میں جو بندربانٹ کی گئی اس پر ازخود نوٹس لینا چاہئے تھا۔ ہمارے ہاتھ باندھ رہے ہیں اور کسی کو کھلا چھوڑ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آئین میں تاخیر کی گنجائش نہیں اسے وہ ایکشن سے ثابت کریں۔ صاف اور شفاف انتخابات کے لئے وہ کچھ نہیں ہونا چاہئے جس کی طرف نشاندہی کی ہے۔ سول سوسائٹی، قانون دان، سیاستدان اور پوری قوم عام انتخابات کو التواءکا شکار نہیں ہونے دے گی اور اٹھ کھڑی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نہ کرے کوئی کال دینے کی نوبت آئے لیکن نوبت آئی تو کال دی جانی چاہئے ملک اور قوم کو بچانے کے لئے۔ اور کون ہمیں روکے گا ہم نہیں رکیں گے۔ جیل میں ڈالنا ہے ڈال دیں، جیل سے کال دوں گا، باہر سے کال دوں گا جہاں سے کال دوں گا میری ایک آواز پر لوگ باہر نکلیں گے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ عوام کی طرف سے آ رہا ہے۔ ستر سال سے قوم کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم نے نیب قوانین کے حوالے سے جو بات کی ہے اس سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ جنرل مشرف نے نیب قوانین مسلم لیگ ن کو توڑنے اور نوازشریف کی لیڈرشپ کے خاتمے کے لئے بنائے۔ عوام کو یاد ہے کہ کس طرح سیاستدانوں کو اٹھا اٹھا کر نیب قوانین سے ڈرا کر وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ کس طرح الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ق بنا کر اس کو ارکان دیئے گئے۔ الیکشن کے بعد کس سے راتوں رات پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنوائی۔ اس کالے قانون کو ملک میں سیاسی رہنماﺅں کو خریدنے، جھکانے اور اپنی مرضی پر چلانے کا کام لیا گیا۔
شکر ہے کہ میاں صاحب نے یہ تو تسلیم کیا کہ 70سالہ دور میں ان کے بھی 12سال موجود ہیں جب ووٹ کو عزت نہیں دی گئی، اور پاکستان میں اس دور میں نمایاں طور پر ترقی کے نام پر کرپشن کا بازار بھی گرم رہا ہے۔انہوں نے کرپشن کے پیسے اور اسامہ بن لادن سے پیسے لیکر آئی ایس آئی سے ملکر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت کو دو بار ختم کیا تھا۔اگر محترمہ کو 2007میں شہید نہ کر دیا جاتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ کیونکہ 2007ءمیں برطانیہ میں پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں نے جس معاہدہ پر دستخط کئے تھے جسے چارٹر آف ڈیموکریسی کا نام دیا گیا تھا اس میں نیب کے ادارے کو ختم کر کے ایک نیا احتسابی ادارہ قائم کرنے کا نکتہ شامل تھا۔ مگر بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور میں اس نکتے پر کوئی پیش رفت نہیں کی نوازشریف بھی نیب کے کالے قانون کو ختم کر کے چارٹر آف ڈیموکریسی کے مطابق نیا ادارہ نہیں بنا سکے تھے۔ نوازشریف بھی اس پر عمل نہ کرنے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ نیب ایک غاصب کا بنایا ہوا ادارہ ہے جو اس وقت بھی احتساب کے نام پر ناپسندیدہ بلکہ ’معتوب‘ سیاستدانوں کے خلاف دھڑا دھڑ کارروائیاں کر رہا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال جو اس ادارے کے چیئرمین ہیں ان کو خود بھی دیکھنا چاہئے کہ انصاف کے نام پر کسی کے مقاصد تو پورے نہیں کئے جا رہے۔ اصل میں سیاستدانوں کے احتساب کا سب سے بڑا ذریعہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ حکومت کو نوازشریف کی تجویز پر غور کر کے نگران دور اور اگلی حکومت کی تشکیل تک نیب قوانین پر عمل درآمد کو معطل کر دینا چاہئے تاکہ الیکشن سے پہلے کسی کو ناجائز طور پر نشانہ نہ بنایا جا سکے اور کسی کو شکایت کا موقع نہ مل سکے۔ ہر پارٹی کو بغیر کسی خوف کے الیکشن میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے کیونکہ عوام ہر سیاسی جماعت کی کارکردگی اور اس کے اعمال پر اس کا سب سے زیادہ احتساب کر سکتے ہیں۔ اس ملک کا المیہ یہی ہے کہ یہاں عوام کی آواز سنی نہیں گئی،حکومت کے ایم این ایز ہوں یا اپوزیشن کے اراکین ان کے علاقوں میں تو ایس ایچ او بھی ان کی مرضی کا لگایا جاتا ہے وہ پولیس کے ذریعے اپنے مخالفین کو حراساں کرتے ہیں ،آج بھی ملک خداداد میں 6500سے زائد افراد لاپتہ ہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل کیا یہ بات بھی سوچنا ہو گی ۔بہر حال اداروں سے پلیٹ فارم سجا کر مرضی کے نتائج نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الیکشن میں شفافیت اور غیرجانبداری کے لئے ایسا کوئی عمل نہ کیا جائے جو الیکشن کے امن کو داغ دار کر دے اور ملک میں عوام کے فیصلے کی بجائے کسی اور کا فیصلہ کامیاب ہو۔