مہلک ماحولیاتی آلودگی
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے 6ارب انسانوں پر مشتمل اس گلوبل ولیج کی بقا اور سلامتی معرض خطر میں ہے۔ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ ایک نا قابل تسخیر چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔فضا میں موجود مختلف کیمیائی عناصر درجہ حرارت میں خطرناک ترین اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ اگر گلوبل وارمنگ کے اس اہم اور حساس ترین مسئلے کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا گیا تو نسل انسانی کا مستقبل اس کرہ ارض پر نا گہانی خطرات سے دو چار رہے گا۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے لاکھوں برس سے منجمد گلیشیئرز انتہائی سست رفتاری کے ساتھ لیکن بتدریج پگھل رہے ہیں۔ کوئی ایک بڑا گلیشئیرجس دن مکمل طور پر درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے پگھل گیا تو عالمی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ کرہ ارض پر مقیم اولاد آدم کو ایک بار پھر طوفان نوح سے بھی خطرناک اور مہیب حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا اس وقت 1301 ملین ہیکٹر ایکڑ رقبے پر محیط ہے، جس کے صرف 4 بلین ہیکٹر رقبے پر 229 ملکوں میں جنگلات پائے جاتے ہیں۔ 43 ممالک میں 50 فیصد سے زائد جبکہ 64 میں 10 فیصد سے کم رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ پوری دنیا میں ہر سال تقریباً 13 ملین ہیکٹر رقبے پر جنگلات میں کمی ہو رہی ہے۔ تاہم یہ امر حوصلہ افزاءہے کہ 2000ءسے 2005 ءتک 57 ممالک میں جنگلات کے رقبے میں شہریوں اور ارباب حکومت کی خصوصی دلچسپی اور توجہات کی بنا پر اضافہ ہوا جبکہ 83 بد قسمت ممالک میں جنگلا ت کے رقبے میں کمی کا المیہ وقوع پذیر ہوا۔
ماحولیاتی آلودگی جدید دور کا سب سے ہولناک المیہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی اور مظاہرِ فطرت کی تسخیر کے بعض ممالک کے بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود عالم یہ ہے کہ 6 ارب انسانوں پر مشتمل اس جنت ارضی پر سانس لینے والے ایک ارب 70 کروڑ افراد مہلک کیمیائی عناصر سے تشکیل پانے والی ماحولیاتی فضا میں زندگی کرنے پر مجبور ہیں۔ایک جائزے کے مطابق تقریباً 2.4 ملین افراد ہر سال ایندھن جلانے سے پیدا ہونےوالی گیسوں کے ہلاکت آفریں اثرات کی زد میں آ کر لقمہ¿ اجل بن جاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں شہروں، 228 ملکوں اور 7 براعظموں پر مشتمل اس دنیا میں صرف اور صرف 25 شہر ایسے ہیں جنہیں صفائی اور حفظان صحت کے امور کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے والے ایک تحقیقی ادارے کے سروے میں صاف ترین شہر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان 25 خوش قسمت اور صاف ترین شہروں میں ترقی پذیر ممالک کا ایک شہر بھی شامل نہیں ہے۔ ان میں 11براعظم یورپ میں ، 5 براعظم شمالی امریکہ اور 5 کینیڈا میں واقع ہیں۔ بر اعظم ایشیا میں تن تنہا جاپان کو یہ منفرد اور متمیز اعزاز و افتخار حاصل ہے کہ اس کے 3 شہروں کو صاف ترین شہروں کی فہرست میں جگہ مل سکی۔ جنوبی اور وسطی امریکہ ، افریقہ اور آسٹریلیا کا کوئی شہر ماحولیات کے عالمی ماہرین کے قائم کردہ عالمی معیار پر پورا نہیں اتر سکا ۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ دنیا کے 25 صاف ترین شہر جن 13 ممالک میں واقع ہیں۔ ان کی داخلی و خارجی معیشت اس حد تک مستحکم اور توانا ہے کہ ورلڈ بنک کے مقرر کر دہ ترقی کے معیار کے تحت انہیں دنیا کے خوشحال ترین ممالک کا درجہ حاصل ہے۔
پاکستان میں آلودگی کی بڑی وجہ شاہراہوں پر رواں دواں پھٹیچر گاڑیاں ہیں جو ناقص اور کمزور داخلی میکا نیزم کی وجہ سے 25 گنا زائد گیس کا اخراج کرتی ہیںاور ایک تجزیہ کے نگار کے مطابق 90 فیصد ماحولیاتی آلودگی کی ذمہ داری ان گاڑیوں پر عائد ہوتی ہے۔ دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لیے کسی بھی متعلقہ محکمے نے کماحقہ اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کیے۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں اس وقت تقریباً 7 لاکھ سے زائد ایسی گاڑیاں ہیں جو ایسا مواد فضا میں پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں جو براہ راست شہریوں کی بصارت ، یاداشت، اعصاب اور پھیپھڑوںکو متاثر کرتا اور انہیں آنکھ، ناک،گلے اوردیگر جسمانی بیماریوںکا مجموعہ بنا دیتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی آلودگی کا دن منانا ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے حکومت کو کلیدی اقدامات کرنے ہونگے تا کہ شہریوں کو یہ محسوس ہو کہ ارباب حکومت ان کی صحت کےلئے تحفظ ماحول کے شعبہ میں بھی حسن کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ محض اعلانات ، صدارتی فرمودات ، وزارتی ملفوظات ، محکمانہ بیانات اور کاغذی اور لفظی اسراف کے حامل نادیدہ اقدامات آلودگی کے پھیلتے سیلاب کے آگے ریت کی دیوار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
ماحولیاتی آلودگی یقینا معاشرے اور مملکت میں لاشمار مسائل اور امراض کی تخلیق کا موجب بن رہی ہے۔ بے بس شہریوں کے لئے یہ صورت حال یقینا شدید قسم کی تشویش و اضطراب کا باعث ہے۔ جبری ماحولیاتی آلودگی ان پر مسلط کر دی گئی ہے۔ بھاری بھر کم غیر منافع بخش منصوبوں پر قومی خزانہ سے اربوں کے فنڈز اڑا دئیے جاتے ہیں جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کے سنگین مسئلہ کے حل کے لئے مطلوبہ وسائل فراہم کرنے کے باب میں روایتی تساہل اور تغافل سے کام لیا جا رہا ہے۔ وطنِ عزیز کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد مضرِ صحت اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ شہریوں کو صاف اور صحت بخش پانی فراہم نہ کرنا یقینا ظلم عظیم کے زمرہ میں آتا ہے۔ اسی طرح بڑے شہروں میں بسنے والے شہریوں کے وجود دھوئیں ، شور اور گندگی کی وجہ سے مہلک ترین بیماریوںکے نشیمن بن چکے ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے اربابِ حکومت گرانقدر اور قابل عملدرآمد منصوبے متعارف کروا رہے ہیں۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں یہ مسئلہ ابھی محض چند این جی اوز اور ان کے عہدیداران کے روزگار اور ذرائع آمدن میں اضافے کا موجب بن رہا ہے۔ یہ این جی اوز انٹر نیشنل ڈونر ایجنسیوں سے ملین ڈالرز کی ڈونیشن ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے حاصل کرچکی ہیںاور کر رہی ہیں لیکن انہوں نے وطنِ عزیز کے کسی گوشے اور کونے میں کوئی ایسا پراجیکٹ شروع نہیں کیا، جسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکے کہ وہ عالمی عطیاتی اداروں کے فراہم کردہ عطیات کے ساتھ انصاف کر رہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کے لئے کام کرنے والی فارن فنڈڈ این جی اوز درحقیقت اخلاقیاتی آلودگی کے فروغ کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں، حقیقی مسئلہ کی طرف سرے سے ان کی توجہ نہیں ہے۔