انتقال اقتدارمیں اسٹبلشمنٹ کا کردار
بے نظیر بھٹو 1988ءکا الیکشن جیت گئیں۔ لیکن انہیں اقتدار میں آنے کے لیے چند شرائط کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں بتایا گیا پاکستان کی خارجہ پالیسی ان کے دائرہ¿ کار سے باہر ہو گی۔ پاکستان کی دفاعی پالیسی سے ان کا تعلق نہیں ہو گا۔ پاکستان کی انڈین اور افغان پالیسی وہ مرتب نہیں کریں گی۔ اور یہ توہین آمیز رویہ بھی اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم پاکستان یعنی بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی نیوکلیئر / اٹامک پالیسی سے کوئی لین دین نہ ہو گا اور وہ کہوٹہ میں قدم رکھنے کی کبھی فرمائش نہیں کریں گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بطور وزیراعظم وہ کبھی کہوٹہ کا دورہ نہ کر سکیں۔ اور آصف علی زرداری بطور صدر اپنے پانچ سالہ دور میں کہوٹہ کے دورے کی سعادت حاصل نہ کر سکے۔ بے نظیر بھٹو پر یہ پابندی خاصی مضحکہ خیز تھی۔ یعنی وہ وزیراعظم بننے کی اہل تھیں لیکن اعتماد اور اعتبار کے قابل نہیں تھیں۔ اب اس کی وجہ یہ تھی کہ ان پر ہیئت مقتدرہ کا اعتماد نہیں تھا اور یا پھر ایک سویلین منتخب وزیراعظم کو اس کی محدود اوقات میں رکھنا مقصود تھا۔ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن یہ وہی بے نظیر بھٹو تھیں جو شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لے کر آئیں اور پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو کو اقتدار کی منتقلی سے قبل یہ بھی شرط لگائی گئی کہ وہ غلام اسحاق کو پاکستان کا صدر منتخب کروائیں گی۔ کیونکہ مقتدر حلقے غلام اسحاق کو صدر بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ جنرل اسلم بیگ نے ایم کیو ایم کو بھی حکومت میں شامل کروایا اور ہمیشہ بے نظیر بھٹو کو اپنا یہ احسان باور کرواتے رہے کہ وہ ان کی وجہ سے حکومت حاصل کر سکیں۔ جنرل بیگ صلے میں تمغہ¿ جمہوریت بھی لے اڑے اور ستم ظریفی دیکھیں۔ یہ تمام شرائط ماننے کے باوجود بے نظیر اپنے پانچ سال پورے نہ کر سکیں۔ حالانکہ انہیں اقتدار ملا تھا اختیار نہیں ملا تھا۔
جنرل مشرف کے نیچے اگرچہ ایک ڈھل مل جمہوری سیٹ اپ کام کرتا رہا۔ جسے اقتدار منتقل ہوا نہ اختیار مل سکا۔ اس کے باوجود ظفراللہ جمالی کو نکالا گیا۔ اور ایک امپورٹیڈ شوکت عزیز کو وزیراعظم کے نام پر جنرل مشرف کی ذاتی ملازمت کرنا پڑی۔ جو اس وقت کی عدلیہ کو منظور تھی لیکن آج اقامہ رکھنے پر وزیراعظم اور وزراءنااہل ہو رہے ہیں۔
نواز شریف کی پہلی ، دوسری اور تیسری حکومتوں میں بھی یہی ایشو رہا۔ وہ چند معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی کوشش یا خواہش بھی نہ رکھیں گے۔ 2013ءمیں یہ مطالبہ بھی آیا وہ جنرل مشرف پر مقدمہ تو دور کی بات ایسی کوئی چھیڑ چھاڑ بھی نہ کریں گے۔ نواز شریف کے ساتھ مقتدر حلقوں کو دو اور ایشوز بھی تھے۔ مقتدر حلقوں کو ان کی خواہش کے مطابق مالی فنڈز دستیاب نہیں کیے گئے۔ اگر پاکستان کی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بات جو یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان پر خواہ فوجی آمریت ہو یا سویلین حکومت ہو وزیر خزانہ ہمیشہ برتر حلقوں کی مرضی کا رہا ہے۔ ملک غلام محمد کو دیکھ لیں۔ جنرل ایوب کے اقتدار کو جنرل یحییٰ نے ختم کیا لیکن وزیر خزانہ شعیب کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ ضیاءالحق کے دور میں محبوب الحق وزیر خزانہ تھے۔ جبکہ جنرل مشرف نے وزیر خزانہ شوکت عزیز کو ہی وزیراعظم بنا دیا۔ وجہ اس کی ہمیشہ یہ ہی رہی کہ وزیر خزانہ اپنی مرضی کا ہو تاکہ مالی فنڈز اور بجٹ میں حصہ اپنی مرضی کا ملتا رہے۔ نواز شریف نے اپنے ادوار میں دستیاب فنڈز کا ایک بڑا حصہ ترقیاتی منصوبوں پر لگانا شروع کر دیا۔ اور اسحاق ڈار نے فرمائشوں کے باوجود ان ترقیاتی فنڈز کو دوسری جانب موڑنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ دیکھ لیں کس طرح ان حضرات کو عبرت کی مثال بنانے کی کوشش کی گئی اور اب سی پیک کے ٹھیکوں کے چکر میں احسن اقبال کی باری آنے والی ہے۔ اورنج ٹرین پر اتنے ماہ تک کام روکنے کے پیچھے بھی یہی رولا تھا۔ ملک کو فلاحی ریاست بنانے کی اس کوشش کے علاوہ نواز شریف کی دوسری غلطی خارجہ پالیسی کو پرو امریکہ سے تبدیل کرکے روس اور چین کی جانب موڑنا تھا۔ اور سعودی عرب فوج نہ بھیجنا ایک اور بڑی غلطی تھا۔ نواز شریف کا خیال تھا اس سے ہمارے ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے اور ذرا ستم ظریفی دیکھیں۔ جن جنرل راحیل شریف نے تین سال نواز شریف کو حکومت کرنے نہ دی۔ اور عملی طور پر تمام اختیارات پر قبضہ کیے رکھا، وہ جنرل راحیل آج اسی سعودی عرب کی ملازمت کر رہے ہیں۔ یعنی نواز شریف تو ملک کی خاطر سعودی حکمرانوں سے اپنے قریبی ذاتی مراسم بھی خاطر میں نہ لائیں اور جنرل راحیل انہی سعودیوں کی ملازمت حاصل کرنے کے لیے اپنے اسی وزیراعظم کی زندگی اجیرن کر دیں۔
جو بات میں ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب بھی اس ملک میں انتقال اقتدار ہوا وہ چند شرائط پر ہوا۔ اور جونہی یہ شک گزرا کہ طے کردہ شرائط سے روگردانی کی جا رہی ہے۔ یا کوئی وزیراعظم زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ کوئی ایسے کام کر رہا ہے۔ جو اس کی مقبولیت کا باعث بن سکتے ہیں۔ یا مرضی کے فنڈز نہیں دے رہا اس کی چھٹی کر دی جاتی ہے۔
اب کچھ لوگ کہیں گے۔ سیاستدان ان شرائط کو مان کر حکومت میں کیوں آتے ہیں۔ وہ ایسا اقتدار کیوں لیتے ہیں جس میں اختیار نہیں ہوتا۔ اس کا جواب میں تین حوالوں سے دوں گا۔ پہلا حوالہ تاریخ سے ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے انتقال اقتدار سے قبل یہ شرائط ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا وہ ایک ایسی بگھی پر نہیں بیٹھے گا جسے اٹھارہ اتھرے گھوڑے کھینچ رہے ہوں۔ جنرل یحییٰ کی ایک شرط یہ تھی کہ انتقال اقتدار کے بعد بھی اسے پاکستان کا صدر رہنے دیا جائے۔ اور ظلم کی بات یہ ہے۔ آپریشن سرچ لائیٹ کے نتیجے میں جب پاکستان ٹوٹ گیا تب بھی جنرل یحییٰ اپنی اسی شرط پر قائم تھا۔ وہ تو چھاو¿نیوں میں ہونے والی بغاوت کا سن کر جنرل یحییٰ انتقال اقتدار پر تیار ہوا۔
اس ایک مثال سے یہ واضح کرنا مقصود ہے۔ اگر سیاستدان انتقال اقتدار پر پیش کردہ شرائط تسلیم نہ کریں توہمارے مقتدر حلقے ماشاءاللہ اتنے بااصول ہیں وہ ملک تڑوا لیں گے۔ کوئی نقصان کروا لیں گے، اقتدار منتقل نہیں کریں گے۔ چنانچہ سیاستدان کیا کریں ؟ وہ شرائط مان کر اپنے لیے ، ملک کے لیے اور جمہوری نظام کے لیے راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لڑتے نہیں، وہ جانتے ہیں لڑائی میں ملک کا اور جمہوریت کا نقصان ہے۔ دوسری جانب فوجی آمریت ہے۔ احساس برتری ہے۔ احساس طاقت ہے۔ طاقتور انائیں ہیں۔ وہ ملک کا نہیں سوچتے۔ چنانچہ شرائط رکھتے ہیں۔ اور اب پھر یہ شرطیں پیش کی جا رہی ہیں۔ ایک سابقہ سپائی ماسٹر ریٹائرڈ جنرل نے کہا ہے۔ جب تک ایک منصفانہ اور غیر جانبدارنہ نظام نہ بنا لیا جائے، اقتدار منتقل نہ کیا جائے۔ گویا الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔ اور پھر سیاستدانوں کو پھانسی لگواتے ہیں۔ قتل کرواتے ہیں۔ جلاوطن کرتے ہیں۔ نا اہل کرتے ہیں اور سسٹم کو یرغمال بناتے ہیں۔ کبھی سوچا محب وطن کون ہے ؟ اور یہی دوسری وجہ ہے۔ تیسری وجہ یہ کہ سیاستدان ٹائم لیتے ہیں تاکہ ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کچھ کام کر لیے جائیں۔اور یہیں سے ارتقاءجنم لیتا ہے۔ اندھیرے راستوں پر اور گھپ اندھیروں میں یہ خاموش کوششیں ، یہ قربانیاں اور یہ جدوجہد ہر قدم ہمیں اس منزل کی طرف لیجا رہا ہے۔ جب مقتدر حلقوں کا آہنی شکنجہ ٹوٹے گا۔ جمہور کی فتح ہو گی۔ اور سویلین برتری کا سورج پوری آب و تاب سے طلوع ہو گا اور ہر سو چمکے گا۔ اور وہ سیاستدان جو آج بظاہر خاکی پچ پر کھیل رہے ہیں۔ وہ اس جدوجہد کا حصہ بن جائیں گے۔