Tayyab Mumtaz

بات تو سچ ہے مگر، بات ہے رسوائی کی

نااہل سابق وزیراعظم کیا چاہتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیںہے۔ وہ منصور بن کر انا الحق کا نعرہ لگاتے حلقہ دار کو گلے کا ہار بنا کر امر ہونا چاہتے ہیں یا محض اسے چوم کر ایک بار پھر فرار ہونا چاہتے ہیں‘ یہ وہ بتائیں گے یا ان کے وہ حواری جو انہیں سولی چڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ رام بھلی کرے گا‘ اس کی گارنٹی کس نے دی ہے یہ بھی وہی بتائیں گے۔ تاریخ بالعموم اور ان کی تاریخ بالخصوص گواہ ہے کہ ایسا مشورہ دینے والے عام طور پر اگلی حکومت میں وزارت کے مزے لیتے پائے گئے ہیں۔ یہ وہ پہلے بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ قدم بڑھاﺅ کی ہلاشیری دینے والے اکثر پیچھے مڑ کر دیکھنے پر دکھائی نہیں دیتے۔ اس تلخ تجربے کے بعد گھاک سیاستدان دوبارہ ایسی غلطی کرے گا‘ دماغ ہی نہیں دل بھی تسلیم نہیں کرتا۔
بات بظاہر اتنی نظر آتی ہے کہ نواز شریف نے وہ نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے کہ ان کے ماتھے پر لال سیاہی سے نااہل لکھ دیا گیا ہے۔ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اب ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں رہا۔ اگر اس بات میں غلو محسوس ہو تو معذرت‘ لیکن بندہ ایسی حرکت تبھی کرتا ہے جب تجدید وفا کا ہر امکان ختم ہوجائے۔ قابض افواج کو جب شہر چھوڑ کر پسپا ہونا پڑے تو وہ انہیں برباد کرکے جاتی ہیں تاکہ آنے والے اس کی تعمیر نو میں لگے رہیں۔ ہرے بھرے کھیتوں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ پل اور عمارتیں تباہ کردی جاتی ہیں اور تناور درختوں کے سر قلم کردیئے جاتے ہیں۔ ایسی نامعقول حرکت کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ اب واپسی کا نہ ارادہ ہے نہ امکان‘ اگر یہ ہے تو میں ان سے متفق ہوں۔
اس بات سے قطع نظر کہ ممبئی حملوں میں پاکستان ملوث تھا یا نہیں‘ اس بات کو بھی ایک طرف رکھئے کہ اس سارے معاملے میں تحقیقات میں روڑے خود بھارت اٹکاتا رہا ہے تاکہ عالمی فورم پہ پاکستان کو بدنام کیا جاتا رہے۔ جب کلبھوشن کو گرفتار کیا گیا تو بھارت کے پاس یہی ٹرپ کا پتہ تھا جو اس نے عالمی عدالت انصاف میں پھینکا۔ اسے بھی ایک طرف رکھیں کہ جرمن مصنف ایلاز ڈیوڈسن اپنی کتاب The Betrayal of India میں کس طرح ممبئی واقعہ کا پول کھولتا ہے اور دلائل و شواہد سے ثابت کرتا ہے ۔ ان عینی شاہدوں کو بھی چھوڑیے جنہوں نے اجمل قصاب کو بھارتی عدالت میں جج کے سامنے مراٹھی بولتے سنا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈیئے کہ نان سٹیٹ ایکٹر کیا صرف پاکستان میں موجود ہیں جو بقول سابق وزیراعظم کے سرحد پار جا کر ایک سو پچاس لوگوں کو مار ڈالتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ یہ برہمن ذہنیت ملک میں اس طرح سرائیت کر گئی ہے کہ ملکی سلامتی کیلئے خطرہ بن گئی ہے اور یہی وہ نان سٹیٹ ایکٹر ہیں جو ممبئی دھماکوں اور دیگر واقعات میں ملوث ہیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے بھارت میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ آپ کو مقبوضہ کشمیر اڑی میں بھارتی سکیورٹی فورسز پر مجاہدین کا حملہ یاد ہوگا۔ اس کا ذمہ دار پاکستان تھا یا نہیں‘ اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ پاکستان دنیا میں اس لئے تنہا ہے کہ ہم نے نان سٹیٹ ایکٹرز کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ نان سٹیٹ ایکٹر کھلے عام پاکستان میں ریلیاں نکالتے اور مظاہرے کرتے ہیں۔ گو پاکستان کا اس واقعہ میں کوئی ہاتھ نہیں لیکن‘ اور اس لیکن کے بعد وہ وہی بولے جو نواز شریف نے کہا اور اس کا ذمہ دار نواز شریف کو ٹھہرایا۔ برسبیل تذکرہ‘ یہ نان سٹیٹ ایکٹر اس وقت جنم لیتے ہیں جب ریاست کو ان کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں کھلی چھٹی اس وقت ملتی ہے جب ریاست کامیاب خارجہ پالیسی بنانے میں ناکام رہتی ہے اور ذمہ داری قبول کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اپنا حق دنیا کے سامنے منوانے میں سفارتی سطح پر ناکام رہتی ہے یا کمزور معیشت کے باعث ایسے ممالک سے امداد لیتی ہے جس کی پراکسی جنگ اسے مجبوراً ان ہی کے پالے ہوئے نان سٹیٹ ایکٹروں کے ذریعے لڑنی پڑے۔ پاکستان میں یہ تمام عناصر بیک وقت موجود رہے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہی نان سٹیٹ ایکٹر ساری دنیا میں سٹیٹ کی آشیرباد سے حکومتی پالیسیوں کے مطابق کارروائیاں کرتے ہیں لیکن کوئی ملک اسے کسی سطح پر تسلیم نہیں کرتا‘ کوئی سابق وزیراعظم تو ہرگز نہیں اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اس کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ بارہا ایک بات کی طرف اشارہ کیا اور تین بار وزیراعظم رہنے والے واقف حال سے یہ بات کیونکر پوشیدہ ہوگی کہ کچھ سرخ لکیریں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ گاہے یہ خون سے تحریر ہوتی ہیں۔ انہیں پار کرنا تو دور ان کے قریب بھی جانا چاہئے لیکن وہ گئے‘ بارہا گئے اور اس بار اس سرخ لکیر کو عبور کرگئے۔ یہ کوئی بہادری کی بات نہیں ہے۔ یہ حماقت ہے اور اپنی غرقابی کے ساتھ صنم کو بھی لے ڈوبنے کے واضح عزم کا اظہار ہے۔ اس کا نتیجہ اتنا ہی سخت ہونا چاہئے جتنی کہ یہ حرکت خود ہے۔ بھارت نے پاکستان کے سابق سہ بارہ وزیراعظم کا سوچ بولنے پہ شکریہ ادا کرتے ہوئے امریکی کانگریس کو ان کے بیان کی کاپی بھجوا دی ہے۔ امریکہ سے آج کل ہمارے تعلقات کا یہ عالم ہے کہ اس کے سفارت کار کو لے اڑنے کا عزم لئے امریکی طیارہ گھنٹوں ایئرپورٹ پر کھڑا سوکھتا رہا اور آخر کار ہماری غیرت جھک گئی اور کس بات پر جھکی اس کا اندازہ سب کو اچھی طرح ہے جیسے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں آیا تھا ۔
امریکہ نے حال ہی میں خود کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے الگ کیا ہے لیکن اس بار یورپ اور چین اس کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس کا غصہ الگ ہے اور وہ واضح طور پر ایران میں رجیم کی تبدیلی کی بات کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کا ساتھ دینے کے امریکی عزم کا اظہار کیا ہے۔ ویسے تو یہ کھلم کھلا عزم مظاہرین کے غبارے میں سوئی چبھونے کے مترادف ہے اور غالباً اس کا مقصد بھی یہی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ اس کی دشمنی خالص اور شفاف ہے۔ سابق وزیراعظم کا یہ اعترافی بیان کیا گل کھلائے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ امسال فروری میں پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں زیر نگرانی رکھا گیا تھا جس کا حتمی فیصلہ جون میں ہونا ہے۔ گو وہاں پاکستان کی حمایت میں ترکی اور چین موجود ہیں اور ایران کو بھی ہم نے کسی حد تک رام کرلیا ہے لیکن ایک سابق وزیراعظم کا اعترافی بیان کیا اثرات مرتب کرے گا یہ اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ ان حالات میں اس بیان کی حیثیت بلیک میلنگ کی سی ہے جبکہ ابھی نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کے ساتھ ان کا تنازع ہوا میں تھا۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ نیب نے نوازشریف خاندان پر منی لانڈرنگ کا جو الزام لگایا ہے اس کا تعلق بھی بھارت سے تھا۔ ان سے ثبوت مانگتے مانگتے اچانک ایک متنازعہ صحافی کو پروٹوکول کے ساتھ بلوا کر ایک متنازعہ بیان دینا کوئی نیک نیتی معلوم نہیں ہوتی۔ جب نیب کے ساتھ یہ ہنگامہ عروج پر تھا تو کہنہ صحافی ضیا شاہد اپنے پروگرام میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ نیب لاہور کے دفتر پر تخت رائے ونڈ کی طرف سے حملے اور ریکارڈ کی چوری کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے دفتر پر رینجرز کی نفری بڑھا دی گئی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے جس کی تصدیق بزرگوار سے کی جاسکتی ہے تو امکان ہے کہ ایسی کسی حرکت میں ناکامی کے بعد مشتعل ہوکر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ یہ البتہ نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اس قدر شدید متنازعہ بیان کو آخر کسی بھی وجہ سے واپس کیسے لیا جائے گا؟ اطلاعات ہیں کہ وزراءاور مشیران نے اس بیان کا دفاع کرنے سے انکار کردیا تھا۔ بعض نے اپنے فون بھی بند کردیئے تھے‘ ظاہر ہے یہ حرکت کسی مشاورت کے بعد نہیں کی گئی اگر کوئی مشاورت ہوئی تو وہ قریبی دو چار لوگوں کے درمیان رہی ہوگی جس کا علم دیگر وزراءاور ذمہ داران کو نہیں رہا ہوگا جس بیان کا آج دفاع کرنا مشکل ہورہا ہے اسے کل کیسے ڈبے میں بند کیا جائے گا۔ اگر معاملہ ڈان لیکس کی طرح ٹھنڈا ہوگیا تو ملک میں جاری احتساب پر ہماری طرف سے قبل از وقت فاتحہ۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں اور نیب کی بخشش کیلئے دعا کریں۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھی۔اور ویسے بھی ہماری ایجنسیاں کون سی دودھ کی دھلی ہیں
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
کہا تو ویسے نوازشریف نے سچ ہی ہے دیر آئید مگر درست آئید

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button