“ووٹ کو عزت دو “یا ووٹر کو عزت دو
میاں نواز شریف آئندہ انتخابات میں “مجھے کیوں نکالا” کے علاوہ جس بڑے نعرے کے ساتھ عوام سے ووٹ لینا چاہتے ہیں وہ ہے “ووٹ کو عزت دو”۔ ان کے جلسوں میں نہ صرف یہ نعرہ لگوایا جاتا ہے بلکہ اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ سیاست میں یہ ان کا سیاسی مرکزومحور ہوگا۔ اب دو اہم سوال پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ میاں صاحب آئندہ انتخابات میں ان نعروں سے کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ ووٹ کی عزت بحال کروانے کے اس مشن کا انجام کیا ہوگا۔ انتخابات کے نتائج اور نعروں کی گونج پر بعد میں آتے ہیں پہلے ذرا بات ہوجائے “ووٹ کی عزت” کی۔ ووٹ اور ووٹرکی بے حرمتی اور بے توقیری جس قدر میاں نواز شریف اور ان جیسے بوٹ پسندوں نے کی ہے اس کی مثال تاریخ کے ابواب میں گوگل کے چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ پہلی بات تو یہ کہ میاں نواز شریف ووٹر کے دل میں گھر کرکے ایوان اقتدار میں نہیں آئے بلکہ محض نوٹ کے ذریعے ایک ڈکٹیٹر ضیاءالحق کی بیجا اور بے تحاشا عزت کرکے ووٹر کے حق خود رائے دہی کو پیروں کے نیچے روند کر وارد ہوئے۔
میاں صاحب کیا ملک میں ووٹ کی عزت بحال کروائیں گے جبکہ خود ان کی اپنی سیاست کی ابتدا ہی ووٹ کی بے حرمتی اور ووٹر کی بے توقیری ہے۔ آگے بڑھتے ہیں، میاں صاحب نے بھٹو سے خاندانی مخاصمت کو ڈکٹیٹر کے دربار میں کیش کروایا اور قومی لیڈر بننے کی دوڑ دھوپ شروع کی تو سب سے پہلے جن روایات کا خون ہوا وہ ووٹ اور ووٹر کی عزت تھی۔ جب لیڈر خود اقتدار میں کسی گھس بیٹھئے کے تلوے چاٹ چاٹ کر آتا ہے تو عوام میں اسے پزیرائی نہیں بلکہ رسوائی ملتی ہے اور یہی ہوا۔ عام لوگوں کا انتخابی عمل سے اعتبار اٹھتا گیا اور لوگ ووٹ دینے کے عمل سے بتدریج بددل ہوتے گئے۔ اگر 1979ءسے 2013ءکے انتخابات میں ووٹ نہ دینے والوں کی تعدادکا ووٹروں کی کل تعداد سے موازنہ کیا جائے تو پینتیس سالوں میں ووٹ نہ دینے والوں کی تعداد میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور اس کا سہرا میاں نوا ز شریف جیسے بوٹ پسند لیڈروں کو ہی جاتا ہے۔ عوام کے انتخابی عمل سے بد دل ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف اور اقتدار پر قابض یہ ٹولا پٹواریوں ، ٹیچروں اور میونسپلٹیوں کے عملے کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر اقتدار میں آنے کے لیے جہاں ایک روپیہ خرچ ہوتا ہے اس کی جگہ قومی خزانے کو ایک لاکھ روپے کا ٹیکہ لگاتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر نہ تو عوام کا اصل نمائندہ ہمارے انتخابی نظام میں جیت سکتا ہے اور نہ ہی عوام کے اصل مسائل پر ایوان اقتدار میں بیٹھے ان بے رحم بیوپاریوں کو کوئی سروکار ہوتی ہے۔
پھر چاہے پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچہ تعلیم سے محروم مزدوری کرنے پرمجبور ہو اور جو بچے سرکاری سکولوں میں جائیں وہاں زیادہ وقت زمین پر بیٹھ کر کھلے آسمان تلے موسم سے جنگ کرتے پائے جائیں مگر عوام بیزار یہ لیڈر تعلیم کے شعبے پر پیسے خرچ کرنے کی بجائے میٹرو ٹرین اور میٹرو بس بنانے میں مصروف رہیں۔ چاہے غریب عورتیں زچگی سے مرتی رہیں یا پھر سڑکوں پر بچے جنتی رہیں، ہسپتالوں پر ایک ایک بستر پر کیڑے مکوڑوں کی طرح دو دو مریض لاد دئیے جائیں بلکہ ہسپتالوں کے فرش پر ڈاکٹروں کے انتظار میں جان دیتے رہیں، ووٹر کی عزت نفس کو مجروح کرنے والے یہ اقتدار کے ایوانوں پر قابض درندے صحت پر بجٹ کے نام پر پھوٹی کوڑی خرچ نہ کریں اور ان کے محلوں اور ایوانوں کی سکیورٹی کا بجٹ صحت کے بجٹ سے زیادہ ہو۔ چاہے ووٹر کی عزت اورمال محفوظ ہو نہ ہو پولیس میں ان لیڈران کے تخت کو بچانے کے لیے عابد باکسر اور گلوبٹوں کی طرح کے پالے غنڈے تنخواہیں اور بے جا مراعات وصول کرتے رہیں اور ووٹر کی عزت کو پامال کرکے اس کا سر شاہی تخت کے پایوں کے نیچے دیتے رہیں۔
میاں نواز شریف صاحب کے منہ سے ووٹر اور ووٹ کی عزت کی بات سن کر مجھے ایس ایم ظفر کا ہماری عدالتوں سے ایک رقاصہ ، گلوکارہ اور فلمی ستارہ عورت کیلئے پردہ نشیں لیڈی ثابت کر کے اسے عدالتی کارروائی سے مستثنیٰ قرار دلوانا یاد آتا ہے۔ نواز شریف کا ووٹر اور ووٹ کی عزت کی بات کرنا ایسے ہے جیسے نیٹو فورسز کا سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے ہی فوجی شہید کرکے ہمیں دہشتگردوں کا ساتھی قرار دے کر ہمیں سے ڈو مور کا مطالبہ کرنا۔ نواز شریف کا ووٹر کی عزت کا مطالبہ کرنا ایسے ہے جیسے اسرائیلی فوج کا فلسطین پر حملوں کے بعد فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آہ و فغاں برپا کرنا۔ نواز شریف صاحب کیا نوے کی دہائی میں بینظیر کی حکومتیں گرانے کی سازشیں بھول گئے۔ کیا انہیں اس وقت خیال نہیں آیا تھا کہ محترمہ بینظیر کی حکومت عوام کے ووٹوں سے تشکیل پائی تھی۔ میاں صاحب آپ کو چھانگا مانگا تو یاد کروانا نہیں پڑے گا۔ آپ کسے اور کس منہ سے ووٹ کی عزت و توقیر یاد کروا رہے ہیں یہ ووٹر کی عزت کیلئے نعرہ نہیں یہ احتساب کے عمل کے خلاف نعرہ مستانہ ہے۔ اس پر لبیک کہنے والے جتنے بھی ہوں بس یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عزت کا دعویٰ آپ کے ساتھ چلنے والا کوئی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ نواز شریف صاحب کی پارٹی کے ووٹر تو کیا اکثر لیڈر جناب سے ملنے کےلیے ساڑھے چار سال طلبگار ہی رہے وہ تو بھلا ہو نااہل کرنے والوں کا جنہوں نے جناب کو ووٹ، ووٹر کی عزت اور مقامی لیڈر یاد کروا دیے ورنہ آپ کے قریب تو کسی غریب کی عزت پر نہیں مار سکتی۔
اب ذرا بات ہوجائے انتخابات کے نتائج کی اور نعرہ¿ ووٹ کو عزت دو کے مستقبل کی۔ گزارش یہ ہے کہ پیپلزپارٹی تحریک انصاف کا الائنس بننا نہیں ہے بن چکا ہے اور میں اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ بلدیاتی الیکشن میں میں نے ایک چھوٹی یونین کونسل سے اس کی بنیاد رکھی تھی چاہے اس کو تمھارے ایم این اے کی مداخلت اور پولیس کو استعمال کرتے ہوئے باور نہ ہونے دیا مگر آئندہ انتخابات جیتنے کیلئے محمود و ایاز ایک ہوچکے ہیں۔ صدر “صدر زرداری” اور وزیراعظم عمران خان کی تیاریاں شروع ہیں اور اگر اس رستے پر کچھ دیر تک اور محمودوایاز چلتے رہے تو شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہی ہوں گے۔ لیکن یاد رہے ابھی احتساب کے کچھ مراحل آنے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں پر تشویشناک صورت حال پیش کرنے والوں کی خدمت میں گوش گزار کرتے چلیں کہ انتخابات وقت پر ہی ہوں گے اگر تاخیر ہوئی تو چند دن سے زیادہ نہیں ہوگی۔ گویا ووٹ اور ووٹر کو عزت دینے کا وقت گزر چکا۔ اب تو دیکھنا یہ ہے کہ ووٹر کو کس نے عزت دی اور ووٹر کس کو عزت دے گا۔ اور ذرا احتساب کی ستم زاری اور ضرب کاری ملاحظہ کریں۔ ووٹ کو عزت دینے کی بات آج وہ کر رہے ہیں جو ووٹروں کونان قیمے اور بریانی پر ڈھیر کرلیتے تھے۔