سالانہ ایک لاکھ 68 ہزار نوزائیدہ بچے ہلاک
ماحولیات کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر برس ایک لاکھ 68 ہزار نوزائیدہ بچے موحولیاتی آلودگی کی وجہ سے جان بحق ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ایک کروڑ 62 لاکھ 80 ہزار افراد ہر سال فضائی آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں۔اور اس کی بنیادی وجہ ملک میں فضائی آلودگی،گاڑیوں کا دھواں،فیکٹریوں میں جلائے جانے والے ٹائرز ،درختوں کی تیزی کے ساتھ کٹائی اور گاڑیوں کے شور کی آواز کی آلودگی اور دیگر اقسام کی آلودگی شہریوں کی صحت اور زندگی کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔
یہ افراد فضائی آلودگی سے صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کی شرح بین الاقوامی معیار سے تجاوز کر چکی ہے۔ آلودگی کی شرح میں اضافے کی وجہ تکنیکی سہولتوں کا فقدان ، گاڑیوں میں اضافہ، صنعتوں کی آلودگی اور عوام میں ماحولیات کے حوالے سے شعور کی کمی ہے۔ فضائی آلودگی میں اضافہ کی وجہ درختوں کی کٹائی اور جنگلات کی کمی ہے ۔ صنعتی آلودگی اور ٹریفک میں بے پناہ اضافہ بھی وجوہات میں شامل ہے۔ اسی طرح شہروں میں سڑکوں کی کشادگی، پلوں، انڈر پاسوں اور فلائی اووروں کی تعمیر کی وجہ سے ہونے والی کھدائی اور درختوں کی کٹائی نے بھی ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کیا ہے۔ پنجاب میں 20 سال قبل گاڑیوں کے مقابلے میں اس وقت 50 لاکھ سے زائد گاڑیاںہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ فضائی آلودگی کے تدارک اور اس کے نقصانات سے بچاﺅ کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کی ضرورت ہے اس طرح انسانی صحت پر ہونے والے مضر صحت اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی ، لاہور ، راولپنڈی، پشاور، حیدر آباد ، ملتان ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ، اور سرگودھا وغیرہ میں آبادی بڑھنے اور پرانی آبادیوں میں درختوں کی تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے مسائل تشویشناک ہیں۔ اب بعض نجی ہاﺅسنگ کالونیوں میں درختوں کو لگانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اور ان میں پارک اور گرین ایریاز بھی موجود ہوتے ہیں۔ لیکن بڑے شہروں میں سڑکوں کی تعمیر نو، کشادگی، پلوں ، انڈرپاسوں وغیرہ کی تعمیر کے نتیجے میں درختوں کو کاٹا گیا۔ کئی جگہوں پر سڑکوں پر گرین بیلٹ ختم ہو گئی ہیں۔ عدالتی احکامات پر ہر درخت کے بدلے متبادل درخت لگائے گئے ہیں وہ عموماً اصل جگہ جہان سے درخت کاٹے گئے ہیں وہاں سے دور لگائے گئے ہیں۔ اس وقت لاہور میں اورنج ٹرین کراچی میں گرین لائن بس اور پشاور میں میٹروبس کے منصوبے زیر تکمیل ہیں کے کھدائی اور تعمیراتی کام کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ لاہور ، کراچی اور دیگر کئی شہروں میں سٹیل فرنس بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ بھی فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ زیادہ تر فیکٹریوں میں ٹائروں کو جلا کر آگ کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ فیکٹریاں بھی آلودگی کا بہت بڑا مرکز ہیں۔ اسی طرح کئی صنعتوں میں ماحولیات کے معیار کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ کئی جگہ پر ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کی کارروائی کے نتیجے میں حالات میں بہتری آئی ہے۔ اسی طرح شہروں میں پیدا ہونے والے کوڑا کرکٹ بھی آلودگی کا باعث ہوتا ہے۔ اس کوڑے کو اٹھانے اور لورڈ ڈمپنگ سائٹ بنا کر وہاں ڈالنے کا عمل لاہور اور پنجاب کے کچھ شہروں میں شروع ہوا ہے۔ لیکن کئی شہروں میں یہ بھی آلودگی کا باعث ہے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کو عوام میں آگاہی کا جامع پروگرام وضع کرکے عوام کو آلودگی کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور آلودگی سے بچاﺅ کیسے کرنا ہے اس کے بارے میں بتایا جائے ۔ اسی طرح ایک موثر ہیلپ لائن شروع کی جائے جہاں لوگ ایسے کارخانوں ، دکانوں ، کاروبا ر اور افراد کی اطلاع دے سکیں جو کسی قسم کی آلودگی پیدا کر رہے ہیں ۔اگر حکومتی اور اپوزیشن ،سرکاری افسران اور انوئیرمنٹ پروٹیکشن بیورو کے افسران ان شکایات کا ازالہ کریں مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسا ممکن نہیں ہے مگر
شاید کہ تیرے دل مین اتر جائے میری بات
ماحولیات کے تحفظ کے لیے سخت ترین قوانین بنائے جائیں اور ماحولیات کی خرابی کے ذمہ داروں کے خلاف موثر کارروائی کے لیے الگ عدالتیں بنائی جائیں تاکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا بھی مل سکے۔ یہ مسئلہ متعلقہ محکمے کے فعال ہونے عوام میں آگاہی ہونے اور ہر شہری کی ذمہ داری اٹھانے سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت میں ہمیں اس کے تباہ کن نتائج بھگتنا ہوں گے۔