ہرنومولود ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض؟
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاڑکانہ اور کراچی میں جو کچھ کہا وہ عوام کے دل کی آواز ہے۔ سپریم کورٹ تنہا ان کی قیادت میں وہ کام کر رہی ہے، جن کی طرف 10برسوں سے سیاسی حکمرانوں نے سرے سے کوئی توجہ نہ دی۔ زرداری اینڈ کمپنی ہو یا نواز شریف ایند سنز اندسٹری دونوں نے قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے بیدردی سے لوٹا اور بیرون ملک اربوں کربوں کے اثاثے اور جائیدادیں بنائیں۔ دونوں خاندانوں کاکوئی فرد بیمار ہوتا ہے تو علاج کے لیے لندن کے پرائیوٹ کلینکوں کا رخ کرتا ہے۔ ان کے بچے اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت سے آج برطانوی شہریت خرید چکے ہیں۔ نواز شریف کے دونوں بیٹے جو پاکستان میں عدالتی بھگوڑے اور مفرور ہیں ، برطانیہ میں رئیل سٹیٹ ٹائیکون کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی شہریت ترک کردی ہے تاکہ ان پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہ ہو۔ نواز شریف کے پوتے اور نواسے ایک دن بھی کبھی کسی سرکاری سکول میں داخل نہیں ہوئے۔ ایسے ہی زرداری کے بچوں بلاول ، بختاور وغیرہ بھی لنڈن کے کنگسٹن سکول میں زیر تعلیم رہے اور بعد میں وہیں کی یونیورسٹیوں میں پڑھے ۔ایسے ہی عمران خان ہوں یا ہمارے جرنیل سب کا یہی حال ہے ۔ایسے میں پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی کے لیے یہ نام نہاد جمہوری حکمران کیسے توجہ
دیتے۔ جب چیف جسٹس آف پاکستان ان کی حکومتوں کی توجہ ان شعبوں کی بہتری کی جانب مبذول کراتے تو آل ِشریف کے تمام مرد و زن اور حواری اس پر غصے سے آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور محسن عوام ثاقب نثار پر طنز و تنقید کے تیر برساتے ہوئے ردعمل میں یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ’ کیا ماتحت عدالتوں میں صورت حال کونسی بہتر ہے‘۔
خیر ، ذکر ہو رہا تھا چیف جسٹس آف پاکستان کے دورہ کراچی اور لاڑکانے کا۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ ’ ازخود نوٹس کا واحد مقصد مسائل کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے، عدلیہ مسائل پر خاموش نہیں رہے گی،عدالت میں جتنی درخواستیں آرہی ہیں وہ انتظامی ناکامی کی وجہ سے ہیں، جوڈیشل سسٹم کا مقصد انصاف دینا ہوتا ہے، سندھ کے لوگوں کو مستقبل میں اچھی صحت سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا ’ہر سوموٹو کے پیچھے وجہ ہے، جوڈیشل سسٹم کا کام صرف انصاف فراہم کرنا ہے، کہیں ناانصافی نہیں کی گئی، یقین دلاتا ہوں کسی ازخود نوٹس میں بدنیتی شامل نہیں‘۔ وکلاءکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہم کوئی یتیم اور محتاج نہیں کہ اگر کوئی حق کیلئے نہ اٹھے تو جوڈیشری بھی خاموش رہے، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، پاکستانی عوام کو جاننا ہوگا ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں، صاف پانی اور ماحول کا تحفظ ناگزیر ہو گیا ہے، سندھ میں لوگوں کی صحت کو خدشات ہیں، سوموٹو ایکشن کا واحد مقصد مسائل کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عدلیہ مسائل پر خاموش رہے۔، تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ صاف پانی معاملے پر جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم کے اقدامات قابل تعریف ہیں،میں کسی سیاسی گورنمنٹ پر الزام نہیں لگارہا ،سندھ کے لوگوں کو مستقبل میں اچھی قسمت سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ ہسپتالوں میں آلات، دواﺅں، ورک فورس کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہسپتالوں کے دورے زندگیاں بچانے کیلئے ہیں، آج پیدا ہونے والا قوم کا ہر بچہ ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ مجھے وہ لوگ چاہئیں جو آنے والی نسلوں کو کچھ دے کر جانا چاہتے ہیں۔ وہ قوم دیکھنا چاہتا ہوں جو آنے والی نسلوں کے لیے قربانیاں دیں‘۔ کڑوا سچ یہ کہ اگر آج ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ پہلی سانس لیتا ہے تو وہ ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ یہ سب کیا دھرا ہے میاں نواز شریف کے سمدھی جناب اسحاق ڈار ایسے نااہل وزرائے خزانہ کی ناقص منصوبہ بندیوں کا۔
سب جانتے ہیں کہ فروری 2008ءاور مئی 2013ءکے انتخابات کے مواقع پر پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دیگر انتخاب میں حصہ لینے والی جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا تھا کہ اگر اُن کی جماعتوں، نامزد اُمیدواروں اور قیادتوں کو وطن عزیز کی زمام کار سنبھالنے کا موقع ملاتو تعلیم اور صحت کے شعبوں کی بہبود اور بہتری ان کی اولین ترجیح ہو گی۔ منشور میں اس امر کابھی وعدہ کیا گیا تھا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی اور انہیں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کےلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کریں گی۔ 2008ءمیں دوسری مرتبہ انتخابی مہم کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی کے پر کشش منصوبوں کو اپنے اپنے انتخابی منشور کا سر عنوان بنایا۔انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، اے این پی ، ایم کیو ایم ، جے یو آئی (ف) نے عددی اکثریت حاصل کی اوروفاق میں حکومت سازی میں کامیابی حاصل کی۔تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی کے پر کشش منصوبے انتخابات میں حصہ لینے والی ہر سیاسی جماعت کے منشور میں جلی الفاظ میں مندرج تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی کےلئے جن افادہ رساں منصوبوں کی شہریوں کو توقع تھی ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی کےلئے جو مطلوبہ رقم درکار تھی، دونوں حکومتوں نے 10برسوں میںبجٹ میں اُسے عوامی توقعات کے مطابق مختص نہیں کیا گیا۔ جمہوری، فلاحی اور رفاہی ریاستوں میں یہ ذمہ داری ارباب حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو رہائش، خوراک، پوشاک، امن، انصاف، علاج اور تعلیم کی بنیادی سہولیات ترجیحی بنیادوں پر فراہم کریں جس معاشرے اور مملکت میں نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے شہری دوائی خریدنے کی سکت نہ رکھتے ہوں اسے کسی بھی طور مہذب،فلاحی اور جمہوری قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس سلسلہ میں حکومتیں وفاقی ہوں یا صوبائی اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ میزانیوں میں شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی ، شہری اور سماجی حلقوں میں بے چینی کا سب سے بڑا سبب اور محرک ناقابل تسخیر مہنگائی اور بیروزگاری کا دائرہ در دائرہ پھیلتا ہوا حجم ہے۔ عام آدمی کسی بھی بجٹ میں پیش کردہ وزرائے خزانہ کی بھاری بھرکم اصطلاحات، مشکل ترین تراکیب اور طویل ترین اعداد و شمار کے پیچیدہ ترین گورکھ دھندوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ وہ صرف اورصرف دو وقت کی آبرومندانہ روٹی کے حصول کیلئے مواقع اور ذرائع کی تلاش میں ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا گراف 25جولائی 2018ءکے انتخابات میںنیچے کی جانب گرتا دکھائی دے رہا ہے۔