Tayyab Mumtaz

کرپشن کیسز کا فیصلہ اور ہمارے ادارے

پانامہ کیس کے حوالے سے قائم ہونے والی احتساب عدالت نے 9 ماہ اور 20 دن کی سماعت کے بعد ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ جس کے تحت سابق اور تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم نوازشریف کو دس سال قید بامشقت اور 80 لاکھ پاﺅنڈ کے جرمانے کی سزا دی گئی ہے جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سات سال بامشقت قید کے ساتھ 20 لاکھ پاﺅنڈ جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہیں جھوٹی دستاویزات دکھانے کی پاداش میں مزید ایک سال کی سزا بھی سنائی گئی۔ اسی طرح نوازشریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے۔ عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ضبط کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ جب کہ اسی مقدمے میں ماخوذ نوازشریف کے دو صاحبزادوں حسین اور حسن نواز کو ملک سے عدم موجودگی کی وجہ سے کسی سزا کامستحق قرار نہیں دیا گیا۔ اگرچہ نیب کے ان سزا یافتگان کے لئے اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے دروازے کھلے ہیں اور وہ یقینا قانونی چارہ جوئی کا حق پوری طرح استعمال کریں گے لیکن فوری طور پر نیب کی جانب سے جو فیصلہ آیا ہے، جس کا گزشتہ جمعہ تقریباً سارا دن پوری شدت کے ساتھ انتظار کیا گیا اس کے پاکستان کی سیاست پر فوری اور طویل مدت کے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ فیصلہ ہمارے ملک کے سیاسی مستقبل پر لمبے عرصہ تک اثرانداز ہوتا رہے گا۔ یہ ملک جو ابھی تک ایک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کے اثرات سے باہر نہیںنکل سکا حالانکہ اس واقعہ کو چار دہائیوں کا عرصہ گزر چکا ہے اس میں ایک مرتبہ پھر عوام کا تین مرتبہ مینڈیٹ حاصل کرنے والے سابق وزیراعظم کو ان کی بیٹی اور داماد کے ساتھ بھاری جرمانے کے ہمراہ جو دس سال کی طویل مدت کی قید کی سزا سنائی گئی ہے وہ بھی تادیر پاکستان کی آنے والی سیاست کے مدوجزر پر گہرے اثرات دکھاتی رہے گی۔
یہاں پر اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف دونوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس ملک کے دفاع کوناقابل تسخیر بنایا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھارت جیسے دشمن کے جارحانہ حملوں سے محفوظ کر دیا۔ فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد مسلم لیگ نواز کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اسے حد درجہ امتیازی اور متعصبانہ قرار دیتے ہوئے حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ نیب کے پاس ارب ہا روپے کی کرپشن کے کئی مقدمات زیرسماعت ہیں اور برسوں سے ان پر فیصلہ نہیں آ رہا لیکن نوازشریف اور ان کی بیٹی کے معاملے میں نیب نے غیرمعمولی سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دلخراش فیصلہ دیا ہے جبکہ شہباز شریف کے الفاظ میں ایک روپے کی کرپشن کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ مسلم لیگ ن کے صدر نے اس پر بھی تعجب کا اظہار کیا ہے کہ فیصلہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات سے تین ہفتے قبل کر کے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک یہ فیصلہ قانونی کی بجائے سیاسی محرکات کے تحت کیا گیا ہے اور وہ خود ملک کے کونے کونے میں بسنے والے عوام کے سامنے یہ مقدمہ لے کر جائیں گے جہاں انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اصل فیصلہ 25 جولائی کی شام کو اصل عوامی عدالت سے صادر ہوگا۔ دوسری جانب نوازشریف کے سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے فیصلے اور اپنے مدمقابل نوازشریف کو دی جانے والی سزاﺅں کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ تیسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ فیصلے کا نوازشریف کو فائدہ ہو گا وہ اگر معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جاتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ پاکستان کا جو سیاسی کلچر ہے یہاں پر سیاسی محاذ آرائی کی جو فضا پائی جاتی ہے اس میں جانبین کا یہ ردعمل متوقع تھا تاہم اس فیصلے اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو ان کی بیٹی اور داماد سمیت دی جانے والی سزا پر کئی ایک سوالات ہیں جو اندرون ملک اور بیرونی دنیا کے اندر مسلسل اٹھائے جائیں گے۔ 25 جولائی کے انتخابات سے پہلے اور ان کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک۔
اس سلسلے میںپہلا سوال یہ ہے کہ صرف سول حکمرانوں کو ہی سخت ترین سزاﺅں کا حقدار کیوں قرار دیا جاتا ہے۔ خواہ تختہ دار پر لٹکانا ہو یا طویل مدت تک اور بھاری جرمانے والی قید بامشقت کی صورت ہو جب کہ فوجی صدور میں سے جنرل یحییٰ خان جن کی صدارت میں یہ ملک دو لخت ہوا اور ہماری بہادر اور نہایت درجے محب وطن فوج کو بھارت جیسے کمینے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اس شخص کو جب اس نے آخری سانس لیا تو قومی پرچم میں لپیٹ کر اور باقاعدہ سلامی کے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
اسی طرح چوتھے فوجی ڈکٹیٹر اور آئین و جمہوریت کو دو مرتبہ غصب کر دینے والے آئین کی دفعہ 6 کے تحت ملک و وطن سے سنگین غداری کے مرتکب جنرل پرویز مشرف کو عین اس کے خلاف مقدمے کے دوران بیماری کے جھوٹے بہانے پر فرار کی سہولتیں مہیا کی گئیں اور وہ کئی ایک عدالتوں کی جانب سے سنگین غداری اور قتل کے مقدمات میں ماخوذ ہونے کی وجہ سے اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی بار بار ترغیبات کے باوجود وطن واپس آنے سے انکار کر دیا ہے مگر ہمارے ملک کی مقتدر قوتوں کی جانب سے اس کے خلاف کسی قسم کے اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح دوسرا یہ اہم سوال بھی زیر بحث رہے گا کہ پانامہ انکشافات جن کے مطابق ساڑھے چار سو با اثر اور دولت مند پاکستانیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں منی لانڈرنگ سے دولت کو محفوظ بنا رکھا ہے۔ انہی ساڑھے چار سو پاکستانیوں میں حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کا نام شامل تھا جبکہ پانامہ کاغذات میں نواز شریف کا ذکر کہیں نہیں پایا جاتا تھا مگر نواز شریف کو اسی پانامہ سکینڈل کے حوالے سے سزا دینے میں تو کوئی تاخیر روا نہیں رکھی گئی جب کہ بقیہ ساڑھے چار سو پاکستانی آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں اندروں و بیرون ملک کاروبار کر رہے ہیں اپنی چھپائی ہوئی دولت یا منی لانڈرنگ سے بیرون ملک منتقل کیے ہوئے کروڑوں روپے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان میں کسی کا بال بیکا نہیں ہوا ظاہر ہے اتنے بڑے اور حد درجہ امتیازی سلوک سے انتقام کی بو آتی رہے گی اور ساری قوم اس کی ناگواری محسوس کرتی ہے۔ مزید برآں پاکستان میں قانون کی بالادستی پر سنگین سوالات اٹھائے جاتے رہیں گے۔
تیسرا سوال جو ہنوز جواب طلب ہے یہ کہ گزشتہ برس جب پانامہ الزامات کے تحت بنائی جانے والی جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش مکمل کر لی اور سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کر دی تو پانامہ الزامات کے حوالے سے نواز شریف اور ان کی بیٹی پر نیب کا مقدمہ چلانے سے پہلے ہی اقامہ جیسے کھوکھلے الزام میں تاحیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ عوام کی جانب سے تیسری بار منتخب کیے جانے والے وزیراعظم کو اتنی جلدی ایوان اقتدارسے باہر اٹھا پھینکنے کی کون سی ملّی اور قومی ضرورت آڑے آ رہی تھی کیا یہ امر بھی انتقامی کارروائی پر دلالت نہیں کرتا۔
یہ تمام سوالات اپنی جگہ اس کے باوجود توقع کے مطابق نواز شریف اپنی اہلیہ کی جو لندن میں موت و حیات کی کش مکش میں نازک ترین حالت میں ہونے کے باوجود ان سطور کے شائع ہونے تک پاکستان آچکے ہوں گے اور قانونی و سیاسی چارہ جوئی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے جیسا کہ اوپر کہا گیا فیصلے کے آنے والے انتخابات پر گہرے اثرات ہوں گے لیکن پاکستان کے آئینی و جمہوری مستقبل کا تقاضا ہے کہ فیصلے سے متاثرہ جماعت اور اس کی حلیف پارٹیوں کو اس میں حصہ لینے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ انتخابی نتائج کو مقتدر قوتوں کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی خاطر جس طرح کسی سیاسی انجینئرنگ کی باتیں زد عام ہیں جیسا کہ مارچ میں سینیٹ الیکشن میں اسی انجینئرنگ کا تجربہ کیا گیا اگر اسی طرح کی کوشش کی گئی تو انتخابات انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو جائیں گے ملک کا ہر گروہ، افراد یا جماعت جو صاف ستھرے شفاف اور آزادانہ انتخابات کی خواہش رکھتے ہیں انہیں ایسے تمام ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے اور انہیں مسترد کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے ۔ صحت مند روایات کے ساتھ جمہوریت کے لیے قافلہ آگے بڑھے گا تو روشن مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button