نوجوان بلاول بھٹو کی کامیاب انتخابی مہم
پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کی پنجاب میں انتخابی مہم تین وجوہات کی بنا پر کامیاب قرار دی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے کم عمر سیاسی راہنما ہونے کے باوجود انہوں نے انتہائی سیاسی اور پختہ ا نتخابی مہم چلائی۔ انہوں نے دیگر سیاسی راہنماﺅں کے بر عکس محض الزام تراشی، بہتان اور کردار کشی کی بجائے اپنے منشور کی بات کی۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں پارٹی کے منشور کے چیدہ چیدہ نکات اور اہم اقدامات کے حوالے سے بات کی۔بلاول بھٹو نے نفرت کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کی بجائے اپنے منشور اور سیاست کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران سیاسی مخالفین پر سیاسی تنقید ضرور کی مگر ذاتی کردار کشی کا سہارا نہیں لیا۔اور یہی وہ بات ہے جو ایک ماں کی گود سے اس نے حاصل کی اور انہوں نے ثابت کیا کہ وہ شہید بے نظیر بھٹو کا فرزند ارجمند ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ پہلی مرتبہ پنجاب کے جیالوں اور نوجوانوں سے ان کے درمیان جا کر مخاطب ہوئے۔انہوں نے کئی دن سڑکوں پر سفر کرتے اور مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے گزارے۔ بلاول بھٹو پارٹی کارکنوں ہمدردوں اور نوجوانوں سے اس رشتے ، رابطے اور ابلاغ کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو کہ محتر مہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد جیسے ٹوٹ سا گیا تھا۔
بلاول بھٹو نے اپنی انتخابی مہم سے اس کمزور ہوتے تعلق اور رشتے کو مضبوط کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو کی اس مہم سے جیالوں اور پارٹی کے چاہنے والوں کی مایوسی کو امید میں بدل دیا ہے۔ جو مایوس یا ناراض ہو کر گھروں پر بیٹھ گئے تھے وہ نئے جذبے کے ساتھ باہر نکلے ہیں۔ پارٹی لیڈر اور کارکنوں کے درمیان مسلسل مربوط اور مضبوط ابلاغ اور تعلق قائم رہنا ضروری ہوتا ہے۔ جب یہ تعلق کمزور ہوتا ہے تو اس سے مایوسی جنم لیتی ہے۔ بلاول بھٹو نے اس انتخابی مہم سے پارٹی میں نئی امیدوں اور امنگوں کے چراغ روشن کیے ہیں۔چاہے اس الیکشن میں پارٹی کو زیادہ سیٹیں نہ مل سکیں مگر جلد ہی پارٹی اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور آصف علی زرداری صاحب سے مودبانہ گزارش ہے کہ اب ان کواس راستے ہٹائیں نہیں چلنے دیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو وہ واحد سیاسی راہنما ہیں جنہوں نے نہ صرف سب سے پہلے پارٹی کے انتخابی منشور کا اعلان کیا بلکہ اسے عوام تک پہنچانے کی پوری کوشش کی۔ ہمارے ہاں انتخابی منشور اب محض رسمی اور روایتی کارروائی اور رسم بن کر رہ گئے ہیں۔ تمام جماعتیں انتخابات میں اپنے منشور جاری کرتی ہیں اور اس کے بعد اسے سنبھال کر کسی الماری میں رکھ دیتی ہیں۔ انتخابات کے چند ماہ بعد اگر آپ ان جماعتوں کے مرکزی قائدین سے پوچھیں تو ان کو بھی یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے اپنے منشور میں عوام سے کیا وعدے کیے تھے۔ جبکہ اپنے منشور کو عوام میں تقسیم کرنا اور اس کے بنیادی نکات پر مہم چلانا اب آﺅٹ آف فیشن ہو گیا ہے۔ ان حالات میں جب بلاول بھٹو نے اپنی انتخابی مہم میں پارٹی منشور کے چیدہ اور اہم نکات کو موضوع بنایاتو اس سے خوشگوار حیرت ہوئی۔ بلاول نے اپنی تقریروں میں مسلسل عوامی مسائل کی بات
کی۔ انہوں نے غربت، تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر مسائل پر اپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کیا۔ بلاول بھٹو کو کارکنوں اور عوام کے ساتھ اپنے رابطوں کو اسی طرح جاری رکھنا چاہیے۔ انہوں نے دوسروں کو گدھا جانور ، ڈاکو ، چور اور دوسرے القابات دینے سے گریز کیا اور پوری سنجیدگی سے ایک خالص سیاسی انتخابی مہم چلائی۔ انہوں نے عوامی مسائل کو اجاگر کیا۔ وہ جمہوریت، عوامی امنگوں ، جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق کے ترجمان کے طور پر ابھرے ہیں جو کہ ایک مثبت اور اچھی پیش رفت ہے۔ انہوں نے تمام تر رکاوٹوں مشکلات اور مسائل کے باوجود نہایت شاندار انتخابی مہم چلائی۔ اس انتخابی مہم نے پنجاب میں پارٹی کی از سر نو تعمیر اور بحالی کے کام کی عملی بنیاد رکھ دی ہے۔ بلاول بھٹو کے دورہ پنجاب سے کئی سالوں سے طاری جمود اور مایوسی کا خاتمہ کیا ہے اور وہ بنیاد رکھ دی ہے جس پر پیپلز پارٹی اگلے پانچ سال اپنی تعمیر کا نیا سفر شروع کر سکتی ہے۔
مرکزی پنجاب کی قیادت اس وقت دو نظریاتی اور پارٹی کے ساتھ لگن اور گہری وابستگی رکھنے والے رہنماﺅں قمرالزمان کائرہ اور چوہدری منظور کے ہاتھوں میں ہے اس لیے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ انتخابات کے بعد اپنی پسند و نا پسند گروہی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر خالص سیاسی اور نظریاتی بنیاد پر پارٹی کو منظم کریں گے اور مرکزی پنجاب کی تنظیم کو ایک ماڈل تنظیم کے طور پر منظم کریںگے۔ پنجاب کے دونوں رہنما اس فریضے کو نبھانے کی پوری صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ازسر نو منظم کرنے اور اسے دوبارہ ایک بڑی سیاسی قوت بنانے کے لیے مختصر المدتی اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کو نئے خان کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کو ابھی سے نئے امیدواروں کا چناﺅ کر کے انہیں پورے اعتماد سے میدان میں اتارا جائے۔
مضبوط امیدواروں اور نام نہاد الیکٹ ایبلز کی تلاش کرنے کی بجائے پارٹی کے اپنے مضبوط امیدوار سامنے لائے جائیں۔ ہر ضلع میں اس حوالے سے آئینی بنیادوں پر ہوم ورک کیا جائے اور نئے امیدواروں کو سامنے لایا جائے۔ اسی طرح پارٹی کے اندر نئے سیاسی کارکنوں کی نظریاتی اور سیاسی تربیت کے مستقبل اور مربوط نظام کو تشکیل دیا جائے۔ جب تک پارٹی نظریاتی اور سیاسی طور پر مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر کھڑی نہیں ہو گی اس وقت تک سیاسی اور تنظیمی بحالی کا عمل ادھورا اور نا مکمل رہے گا۔
بلاول بھٹو نے پارٹی میں قیادت کے خلاءکو پر کر دیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں سیاسی اور تنظیمی خلاءاور بحران کو ختم کیا جائے۔ٹھوس سیاسی لائحہ عمل اور تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔ پارٹی کے مالی اور تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے۔ چند مالدار افراد پر انحصار کرنے کی بجائے پارٹی کے مالیاتی شعبے کو مضبوط کیا جائے تاکہ تنظیمی سرگرمیوںکو تیز کیا جا سکے۔لہٰذا بلاول بھٹو کے پنجاب میں انتخابی مہم کو پنجاب سے جیتی گئی سیٹوں کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اسے مجموعی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی بہت سارے لوگ سیٹوں کے حوالے سے پارٹی پر تنقید کریں گے۔ بلاول بھٹو کی قیادت پر سوالات اٹھائیں گے مگر اس انتخابی مہم کو مجموعی سیاسی اور تنظیمی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس انتخابی مہم کے نتیجے میں پنجاب میں پارٹی کی تعمیر نو اور بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ اگر پنجاب سے قمر الزمان کائرہ اور چوہدری منظور جیسے مضبوط سیاسی اور نظریاتی راہنما کامیاب ہو گئے تو اس سے بھی پارٹی کوفائدہ پہنچے گا۔
بہر حال میرے خیال سے بلاول بھٹو نے بہت اچھی اور کامیاب انتخابی مہم چلائی ہے ۔ اب یہ مجموعی طور پر پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اثرات کو سمیٹے اور اس انتخابی مہم کو پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب میں پارٹی کو مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر منظم کرے۔ پنجاب کی موجودہ قیادت کو مضبوط کرے اور انہیں تنظیمی معاملات میں بھر پور معاونت فراہم کرے۔ پنجاب کے متوقع انتخابی نتائج کی بنیاد پر پارٹی کی صوبائی قیادت کو ہٹانے اور اکھاڑ پچھاڑ فائدہ مند نہیں ہو گی۔ بلاول بھٹو نے اپنی قیادت پر اٹھنے والے سوالات کا عملی جواب دے دیا ہے۔اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو کے سپوت ہیں۔