Tayyab Mumtaz

تم سبھی کچھ ہو ، بتاو تو مسلمان بھی ہو؟

بِلاشبہ جس کے دِل میں رَتی بھر بھی ایمان ہے ،اُس کا دِل حضورِاکرم کی محبت سے سرشاراور اُن کی ذاتِ اقدس پر اپنی جان تک وار دینے کو تیار رہتا ہے۔12 ربیع الاوّل کو ہم آقا کا جشنِ ولادت پورے تزک واحتشام سے مناتے ہیں۔اِس دِن پورا ملک بقعہ¿ نور بنا ہوتا ہے ۔مساجد ،گھروںاور گلیوں میں چراغاں ہوتا ہے ،میلاد کی محافل سجتی ہیں ،جلسے جلوس اور ریلیاں ترتیب دی جاتی ہیں اور فضائیں درودوسلام کی صداو¿ں سے معطر ہونے لگتی ہیں۔جب ہم اِن روح پرور نظاروں میں مستغرق ہوتے ہیں ،تب بھی ہمیں ضمیر کی خلش ہر گز تنگ نہیں کرتی کہ اصل محبت چراغاں اور گھروں کو سجانے میں نہیں ،حضورِ اکرم کے تتبع میں ہے، آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعی میں ہے۔فرقوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی یہ قوم اپنی عقیدتوں کا اظہار تو ضرور کرتی ہے لیکن عمل مفقود،لیکن ہماری حالت تو بقول اقبالؒ یہ ہے کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
یوں تو مرزا بھی ہو ، سیّد بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاو¿ تو مسلمان بھی ہو؟
لاریب ہم مسلمان ہیںلیکن بریلوی ،دیوبندی، اہلِ حدیث ،شیعہ، فاطمی، آغاخانی اور پتہ نہیں کِس کس روپ میں۔ہر گروہ دوسرے گروہ کو کافر و زندیق کہنے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتا کیونکہ اِنہوں نے دین کو ٹھیکے پہ لے رکھا ہے اورصرف اُنہی کی زبانیں سچ اُگلتی ہیںلیکن ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور قوم حیران وپریشان کہ سچّا کون اور جھوٹا کون۔ہم مسلمان ہیں ، اِسی لیے دوسرے مسلمان کا گلا کاٹنا ہمارا فرضِ عین ٹھہرا۔ہم دینِ محمدی کے ٹھیکیدار ہیں اِسی لیے شیعہ کافر ،سُنی کافر جیسے نعروں سے فضائیں مسموم کرتے رہتے ہیں۔ہم مسلمان ہیں ،اِسی لیے اپنے ہاتھ ،زبان اور قلم سے دوسروں کے دَرپئے آزار رہتے ہیں۔میرے ذہن میں ایک سوال بار بار آتا ہے کہ ایک دوسرے کو کافر کہنے والے اپنے آپ کو جنتی ہی کہنا شروع کر دیں تو شاید اس دنیا کا اور ہمارے ملک پاکستان کا سکون بحال ہو سکے۔
دینِ مبیں تو دوسروں کے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے اور آقا نے تو اُس عورت کی مزاج پُرسی بھی کی جو آپ پر ہر روز کوڑا پھینکتی تھی۔طائف کے شَرپسندوں نے آپ پر پتھروں کی بارش کر دی، آپ کا پورا وجود ِمبارک زخموں سے چُور چُور ہوگیا، جوتے خون سے بھر گئے۔آپ نے ایک باغ میں پناہ لی ،فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر حکم ہو تو طائف کا پہاڑ بستی پر گِرا کر اِن شَرپسندوں کو نابود کر دوں؟۔تب عالمین کے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبی نے فرمایا ” نہیں ! اگر یہ اسلام قبول نہیں بھی کرتے تو مجھے یقین ہے کہ اِن کی آنے والی نسلیں مسلمان ہو جائیںگی “ (مفہوم)۔
لیکن ۔۔۔۔۔لیکن فیض آباد (راولپنڈی) میں دھرنے پر بیٹھے یہ لوگ کون تھے جو دَم تو آقا کی محبت کا بھرتے ہیں لیکن لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے اُن کے دَرپئے آزار ہیں؟۔یہ کون لوگ ہیں جن کا سربراہ کہتا ہے ”الحمدُ للہ! خوشی کی بات ہے کہ بچّے اپنے سکول نہیں جا سکتے ،مریض ہسپتالوں میں پہنچنے سے پہلے ہی دَم توڑ رہے ہیں، مزدور تلاشِ رزق میں نہیں نکل سکتے اور کاروبارِ زندگی ٹھَپ ہو کر رہ گیاہے“۔جب اُس سے سوال کیا گیا کہ ایسا کیوں ؟۔اُس نے جواب دیا ”نبی کی محبت سب سے پہلے، باقی سب بعد میں“۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا آقا کی تعلیمات یہی ہیں ؟اور کیا دینِ مبیں اِس کی اجازت دیتا ہے؟۔حبّ ِ رسول کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دوسروں کی دستگیری کی جائے ،اُن کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور اُن کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی جائے ،یہ ہرگز نہیں کہ حبّ ِ نبی کی آڑ میں دوسروں کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنا جائے۔دراصل دھرنے میں بیٹھے لوگوں کا سربراہ کسی سانحے کے انتظار میں تھا ۔اُسے تو اِس بات کی بھی خوشی ہے کہ رینجرز ،ایف سی اور پولیس کے جوان مجمعے کو گھیرے ہوئے ہیں اور کسی وقت بھی ایکشن ہو سکتا تھا۔اُسے تو لال مسجد جیسے کسی سانحے کی تلاش تھی کیونکہ اُسے اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں درکار ہیں۔اگر یہ دیکھنا ہے کہ وہ اخلاقیات کے کِس درجے پر فائز ہے تو اُس کی وہ ”ویڈیو“ دیکھ لیں جو آجکل سوشل میڈیا پر وائرل ہے ، جس میں وہ حکمرانوں کو غلیظ ترین گالیاں بَک رہا ہے اور اُس کے حواری سُبحان اللہ ، سبحان اللہ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے نالائق حکمران ہیں جوآپسی جھگڑوں کو ختم کرنے کو نظر نہیں آتے رہی ہماری افواج اور سیکیورٹی ایجنسیاں تو ان کا حال کیا بیان کیا جائے ۔ان کے بارے میں تو ہائیکورٹ کے جج صاحب نے فرما دیا کہ یہ سارا کھیل انہیں کا رچایا ہوا ہے جج صاحب کے آخری الفاظ بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ” مجھے پتا ہے کہ شاید ان لاپت افراد کی لسٹ میں ایک نام کا اور اضافہ ہو جائے اور وہ نام اس جج کا ہو سکتا ہے“ دوسری طرف شاید کوئی اندھی گولی بھی اس کی طرف آ سکتی ہے یا کوئی فدائی اس پر حملہ آور بھی ہو سکتا ہے۔
جمہوری ممالک میں آزادی¿ اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔بَدقسمتی سے ہمارے ہاں اِس آزادی کو مادرپِدر آزادی سمجھ لیا گیا ہے۔حکومت کی رٹ تو کہیں دکھائی دیتی نہیں اسلام آباد کا دھرنا ختم ہوا تو لاہور میں جاری ہے،نوید چوہدری صاحب کی ایک پوسٹ پر نظر پڑی جس میں لکھا تھا کہ کوئی علمائ،سیاستدان،فوجی یا سویلین ایسا بھی ہے جو عوامی مسائل پر کہیں دھرنا دے تو اس پر میں نے جو الفاظ کہے آپ کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں یقینا آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ پھر کسی خلائی مخلو کو ہی آ کر ان مسائل پر کوئی دھرنا دینا ہوگا کیونکہ نہ تو عوام میں شعور ہے اور نہ ہی ان جملہ افراد میں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔خدا ہمارے ملک پاکستان کا حامی و ناصر ہو اور ہمارے عزیز و اقارب کو ان مشکل لمحات میں اپنی حفاظت میں رکھے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button