پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل اور انٹری ٹیسٹ
نوجوان اور خصوصاً پڑھنے لکھنے والے نوجوان چاہے وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے کسی بھی قوم کا کسی بھی ملک کا مستقبل سنوارنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ حدیث نبوی ﷺ ہے ” علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی جانا پڑے“ ایک اور حدیث مبارکہ ہے ” علم حاصل کرنا ہر مرد عورت پر فرض ہے“ یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد قارئین اور ارباب اختیار خصوصاً شعبہ تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں موجود اپنے نوجوانوں کا جو استحصال کیا جا رہا ہے آپ سب تک پہنچانا مقصد ہے۔
2015میں میری بیٹی نے میٹرک میں نمایاں نمبر حاصل کیے اور اس کا فیصد تناسب96فیصد تھا ۔اس کے بعد مستقبل کی فیلڈ کا تعین کرنا مقصود تھا اس کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد اس کی خواہش کے مطابق اسے میڈیکل کی فیلڈ میں جانے میں ہر ممکن مدد فراہم کی ۔فرسٹ ائیر میں اس کے نمبربھی بہت نمایاں تھے سیکنڈ ائیر میں اس کا رزلٹ ابھی آنا باقی ہے مگر اس کے مطابق پیپرز بہت اچھے ہوئے ہیں اور انشااﷲ وہ اس بار بھی 90فیصد سے زائد نمبر لینے کی امید رکھتی ہے ۔ہمارے ملک میں جس طرح مختلف شعبوں‘ اداروں اور محکموں کو مختلف النوع مافیاز نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے‘ اسی طرح انٹری ٹیسٹ بھی ایک مافیا کی شکل دھار چکا ہے۔ حال ہی میں ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے کے خواہش مند طلبا و طالبات کو اس وقت شدید کرب اور اذیت سے گزرنا پڑا جب میڈیکل کالجز میں داخلہ ٹیسٹ کے پیپرز آﺅٹ ہونے کے بعد ہائی کورٹ نے انٹری ٹیسٹ کے نتائج پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے تو یہ حکم دینا ہی تھا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ پیپر آﺅٹ کیسے اور کیوں ہوا؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انٹری ٹیسٹ پر زور تو بہت دیا جاتا ہے لیکن اس حوالے سے سیکریسی کا کوئی نظام یا انتظام نہیں ہے اور اگر یہ اب آﺅٹ ہوا ہے تو ممکن ہے ماضی میں بھی مخصوص‘ مطلب بھاری آسامیوںکو بھاری معاوضے پر فراہم کر دئےے جاتے ہوں اور یوں ایم بی بی ایس میں بھی میرٹ کا اسی طرح قتل کیا جاتا ہو‘ جیسے دوسرے شعبوں میں کیا جاتا ہے اور اس پر شرم بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس ٹیسٹ کو ایم کیٹ MCAT یعنی میڈیکل کالجز ایڈمشن ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔یہ ٹیسٹ Multiple choice questions (MCQs) کے ذریعے لیا جاتا ہے یعنی ایک سوال کے کئی جواب لکھے گئے ہوتے ہیں اور طالب علم کو ان میں درست جواب کی نشان دہی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن نتائج نیگیٹو سسٹم کی بنیاد پر دئےے جاتے ہیںیعنی اگر درست نشان لگایا تو بصورت دیگر غلط نشان لگانے کی صورت میں نمبر کٹ بھی جاتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی بچے پر دباﺅ ہوتا ہے۔ امسال بھی امتحانی ماحول سے نکلنے والے کتنے ہی بچے رو رہے تھے اور ان کے والدین پریشان تھے۔ بعض بچوں کو غشی کے دورے بھی پڑے تھے۔ بلکہ میری بیٹی نے بتایا کہ اس کی ایک دوست نے خودکشی تک کر لی ہے اور بلکہ بہت سے اور نوجوان اور اس قوم کا مستقبل سمجھے جانے والے بچوں نے خودکشی کی یا کرنے کی کوشش کی ہے ۔انٹری ٹیسٹ کے اجرا ‘ انعقاد اور نتائج مرتب کرنے کے نظام میں بہت سے سقم ہیں‘ جن پر دلائل سے تنقید کی جا سکتی ہے۔ اس ٹیسٹ کا آغاز چند سال پہلے ہی ہوا ہے‘ ورنہ اس سے پہلے بورڈوں کے نتائج کی بنیاد پر براہ راست ہی میرٹ پر آنے والے بچوں کو ایم بی بی ایس میں داخلہ دے دیا جاتا تھا۔ اس ٹیسٹ کے آغاز کا مقصد اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ خود حکومت کو اپنے تعلیمی بورڈوں کے نتائج پر اعتماد اور اعتبار نہیں ہے اور وہ ڈاکٹری میں دل چسپی رکھنے والوں کا ایک اور ٹیسٹ لینا ضروری سمجھتی ہے۔ اب اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کامقصد میرٹ کو یقینی بنانا تھا یا میرٹ کی دھجیاں اڑانا‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ شروع دن سے ہی یہ ایم کیٹ تنقید کی زد میں ہے‘ جو بلا سبب نہیں ہو سکتی۔ اور پرائیوٹ اکیڈیمز کی چاندی کا ذریعہ بھی ہے لاکھوں روپے غریبوں سے بٹورے جا رہے ہیں اور نوجوانوںکا مستقبل تاریک کیا جا رہا ہے۔
میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کے خواہش مند کتنے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائےے کہ پنجاب کے میڈیکل کالجز میں 3400سیٹیں ہیں‘ جس کے لئے ہر سال تقریباً 85000طلبہ ایم کیٹ کا امتحان دیتے ہیں ۔ اس صورتحال سے نجی اکیڈمیاں بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ حال ہی میں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کا پیپر ایک نجی اکیڈمی نے ہی 50000روپے فی طالب علم فروخت کیا تھا۔ اس پر بچوں کے والدین اور خود بچے سراپا احتجاج بن گئے اور کہا کہ بچوں کا مستقبل داﺅ پر لگانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیپر اس نجی اکیڈمی والوں کے ہاتھ لگا کیسے؟ اور اس بار ہاتھ لگا ہے تو کیا ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ انٹری ٹیسٹ کا پرچہ آﺅٹ ہونے‘ اکیڈمیوں کی ہزاروں روپے فیس نہ دے سکنے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرے جانے پر وہ کیا سوچتے ہوں گے۔نجی اکیڈمیوں نے کیا لوٹ مار مچا رکھی ہے‘ اس کا اندازہ اس یوں لگائےے کہ اس وقت صرف لاہور میں 200سے زائد نجی اکیڈمیاں اس کاروبار میں متحرک ہیں اور امیدواروں سے من مانی فیسیں وصول کر رہی ہیں۔ بعض اکیڈمیوں میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی فیس گھنٹوں کے حساب سے لی جاتی ہے ۔ ایگزیکٹو گروپ کی تیاری کی فیس فی طالب علم پچاس ہزار روپے رکھی گئی ہے۔سپر ایگزیکٹو گروپ کی اس سے بھی زیادہ ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ وہ لائق طالب علم جنہوں نے اعلیٰ نمبر حاصل کئے اور جو ان نجی اکیڈمیوں کی فیسیں افورڈ نہیں کر سکتے‘ وہ کیا کریں؟ اگر یہ نجی اکیڈمیاں ایم کیٹ کے سوالیہ پیپرز تک رسائی حاصل کرکے اپنے طلبہ کو وہ پیپرز فراہم کر دیتی ہیں یا حل کرا دیتی ہیں تو اس سے ان لائق طلبا و طالبات کی جو حق تلفی ہوتی ہے‘ اس کا کیا مداوا ہے حکومت کے پاس ؟
ایم بی بی ایس میں داخلوں کا معاملہ اس قدر پیچیدہ اور گنجلک بنا دیا گیا ہے کہ انٹر میڈیٹ پاس کرنے والے بچوں کے لئے عذاب بن چکا ہے۔ڈاکٹروں کے لئے کوئی بہت اچھا سرکاری سروس سٹرکچر موجود نہیں ہے ‘ لیکن نجی سیکٹر میں یہ ایک منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے اس لئے ایف ایس سی پاس کرنے والا ہر طالب علم ایم بی بی ایس میں داخلے کو ترجیح دیتا ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے اور انہیں حل کرنے کا میرے نزدیک بہترین طریقہ یہ ہے کہ بورڈوں اور یونیورسٹیوں کے امتحانات کو فول پروف بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ کسی مزید انٹری ٹیسٹ کی ضرورت پیش نہ آئے۔ دوسرے حکومت کو چاہئے کہ ہر سال میڈیکل کی سیٹوں کی تعداد میں کچھ اضافہ کرے تاکہ کچھ مزید طلبا کو داخلے کی سہولت فراہم کرکے مسابقت کی شدت اور نجی اکیڈمیوں کی لوٹ مار کے گراف کو نیچے لایا جا سکے۔تیسرے‘ نجی میڈیکل کالجز میں فیسیں کم کرائی جائیں تاکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی ان میں داخلے لے سکیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ چوتھے‘ میڈیکل سے ہی منسلک دوسرے شعبوں میں سروس سٹرکچر کو بہتر بنایا جائے تاکہ ان کا سکوپ بڑھے اور سارے طالب علموں پر صرف ایم بی بی ایس کی ہی دھن سوار نہ ہو۔ ہمیں اچھے فارماسسٹس کی ضرورت ہے‘ اچھے پیرامیڈیکل سٹاف کی ضرورت ہے‘ اچھے فزیوتھراپسٹس کی ضرورت ہے‘ اچھے ڈینٹسٹس کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت اسی وقت پوری ہو سکتی ہے‘ جب ان شعبوں میں تنخواہیں بڑھا کر اور سروس سٹرکچر بہتر بنا کر پُرکشش بنایا جائے گا‘ ورنہ تو اسی طرح بھگدڑ مچی رہے گی اور میرٹ کی دھجیاں جا بجا بکھری نظر آتی رہیں گی۔