سول فوجی تناﺅ اور غریبوں کی حالت زار
پاک فوج اور سول حکمرانوں میں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے بالکل غیر ضروری بحث شروع ہوگئی ہے جس نے مناظرے کی سی شکل اختیار کرلی ہے۔ ایک طرف سے بیان آتا ہے تو دوسری طرف سے جواب آجاتاہے۔ فوج کی طرف سے اس سے پہلے کبھی معیشت کے حوالے سے تجزیے سامنے نہیں آئے۔ اس اعتراض پر ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل آصف غفورکا جواب آیا ہے کہ ہر پاکستانی کو معیشت کے بارے میں بات کرنے کا حق ہے۔ یقیناً حق ہے اور عام آدمی اس پر بات بھی کرتا رہتا ہے۔ لیکن کیا یہی حق ہر شخص کو فوج اور اس کی کارکردگی پر بات کرنے کا ہے ؟ ایسا ممکن نہیں اور اگر کوئی بات کرے تو گرفت میں آجاتا ہے کیوں کہ فوج کو ہمیشہ سے ”مقدس گائے “ کی حیثیت حاصل ہے۔اور ویسے بھی فوج میں ایک مقولہ مشہور ہے جو سولین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ” یو بلڈی سویلین“ جو کہ فوجیوں کی ذہنیت کا واضح ثبوت ہے۔ سول حکمرانوں کو بھی یہ جرا¿ت نہیں کہ وہ فوجی معاملات پر تنقید کرسکیں ورنہ ملک کی سالمیت متاثر ہوتی ہے۔ سول حکومت فوج کی تمام ضروریات پوری کرتی ہے تاکہ کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ اس وقت بار بار کہا جارہا ہے کہ مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس یقین دہانی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے اور یہ یقین کس کو دلایا جارہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی خرابی میں ماضی کی فوجی حکومتوں کا بھی حصہ ہے۔ فوج کے ترجمان نے پاکستانی معیشت پر جو تبصرہ کیا ہے اس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا ردعمل بھی بڑا سخت آیا ہے۔ انہوں نے میجر جنرل آصف غفورکو مشورہ دیا کہ وہ معیشت پر تبصروں سے گریز کریں ، ملکی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ احسن اقبال یہاں تک کہہ گئے کہ ” ایسی باتیں کوئی دشمن ہی کرسکتا ہے“۔ کیا وہ فوجی ترجمان کو ملک دشمن قرار دے رہے ہیں؟
اگلے ہی دن جواب الجواب میں میجر جنرل آصف غفور نے پھر ایک پریس کانفرنس کرڈالی جس میں انہوں نے کہا کہ میں نے جو کہا میں اس پر قائم ہوں۔ جہاں تک ترجمان کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے عالمی ساکھ متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو کیا معیشت کے حوالے سے پاکستان کی ایسی ساکھ ہے جو متاثر ہوسکتی ہے۔ کس کو نہیں پتا کہ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ گزشتہ 4سال میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے قرض لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے کہاں گئے ، ان کا استعمال کہاں ہوا اور ان سے ملک اور عوام کو کیا فائدہ پہنچا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ حال یہ ہے کہ قرضوں کا سود چکانے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے مزید قرضے چڑھائے جارہے ہیں اور جب ان کی ادائیگی کا وقت آئے گا تو قرض لینے والے جانے کہاں ہوں گے۔ عوام کی گردن میں پھندا کستا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سود خور ادارے اگر مزید قرضے دینے کا وعدہ کرلیں تو خوشی سے بغلیں بجائی جاتی ہیں کہ یہ ہماری معیشت پر اعتبار کا ثبوت ہے۔
کیا بات ہے ان پریس کانفرنسوں کی، ویسے کہا جاتا ہے کہ فوج اور سول حکومت ایک ”پیج“ پر ہیں۔ فوج کو معیشت پر اپنی تشویش کا اظہار کرنا ہی ہے تو اس کے لیے پریس کانفرنسیں کرنا مناسب طریقہ نہیں۔
ویسے بھی غریب عوام کو ان پریس کانفرنسوں سے کیا ملنا ہے ایک تصویر پر نظر پڑی تو میرا دل زور سے دھڑکا جو کہ سول اور فوجی تمام پاکستانیوں اور اہل اقتدار کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ ایک غریب عورت نے رائیونڈ محلوں کے بلکل قریب سڑک پر ایک بچے کو جنم دے دیا ۔ یہ کیسی بے حسی ہے ہمارے صاحبان اقتدار اور پچھلے تیس سال سے پنجاب پر حکمرانی کرنے والے شریف ” بدمعاشوں“ کی ۔آمروں کی حکومتیں ہوں یا سول سب نے اپنی جیبیں بھری ہیں کہاں گیا اتنا پیسہ جو مشرف دور میں زلزلہ کے بعد اکٹھا ہوا تھا اس وقت ان جرنیلوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ، کہاںگیا وہ پیسہ جب سیلاب کے بعد دنیا سے ملا تھا ،اپنی زمینی بچانے کے لیے کئی غریب بستیاں ڈبو دی جاتی ہیں کبھی سوچا ہے کبھی کسی جرنیل اور ان سیاستدانوں کو بھی غریبوں کی طرح علاج معالجے کے لیے تکلیف اٹھانی پڑی ہے پی آئی سی میں جو کہ لاہور کا واحد کارڈیالوجی ہسپتال ہے ایک بیڈ پر تین تین مریض پڑے ہیں سڑکیں کھانی ہیں لوگوں نے جناب خادم اعلیٰ صاحب ان پلوں کا کیا کرے کوئی جب ہسپتال میں بستر ہی نہیں کیا اچھا ہوتا کہ آپ رنگ روڈ کا ایک فیز کم کر کے ایک ہسپتال بنا دیتے۔آپ ہی کی ناک کے نیچے میرے علاقے سلامتپورہ میں ایک ہسپتال کی منظوری ہوئی بجٹ پاس ہوا مگر ہسپتال نہ بن سکا کیوںکہ ایم این اے کو وہ کام پسند نہیں تھا کیونکہ اس کے سیاسی مخالف نے اس کی منظوری کروائی تھی۔وہاں بیٹھ کے جواری جوا کھیل سکتے ہیں،نشہ بک سکتا ہے آتے جاتے خواتین کو اوباش لوگ تنگ کر سکتے ہیں وہ بھی ایم این اے شیخ روحیل اصغر کی سرپرستی میں مگر ہسپتال نہیں بن سکتا کیوں کہ اس علاقے کے لوگوں نے اسے ووٹ نہیں دیئے تھے۔خدارا آپسی ڈرامہ بازیاں ختم کرو اور عوام کا کچھ سوچیں ، ان لوگوں کا سوچیں جن کے کندھوں پر چڑھ کر آپ لوگ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں، اور دوسری طرف ہمارے جرنیلوں کو بھی چاہئے کہ معیشیت کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ اگر کچھ کرنا ہی مقصود ہے تو اس غریب عوام کے حق میں دو الفاظ بول دو جو تم لوگوں کے راشن پانی کاذریعہ ہے۔تا کہ ان جھوٹے سیاستدانوں کے بہکاوے میں آ کر سڑکوں پر آنے سے پہلے یہ عوام سوچے کہ یہ وہی جرنیل ہیں جو عوام کے دکھ درد کے لیے کوئی قدم اٹھا رہے ہیں یہ نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور تم لوگوں کو بھی بھاگنے کا موقع نہ مل سکے ویسے بھی1971کے بعد ہماری فوج نے کون سا تیر مارا ہے جو ان کو ہر سال بجٹ کا 80فیصد کھانے کو ملے۔ قرضے اس وجہ سے بھی بڑھ رہے ہیں معیشت اس وجہ سے بھی تباہ و برباد ہو رہی ہے۔