Tayyab Mumtaz

چیئرمین نیب کی تقرری اور پی ٹی آئی کا موقف

اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاورت سے چیئرمین نیب کی تقرری کر دی گئی ہے جس میں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے نام کا قرعہ نکلا اور ان کو چیئرمین بنا دیا گیا ہے اور صدر پاکستان نے حسب سابق ان کے نام کی منظوری دے دی ہے اور سائن کر دیے ہیں جو کہ اٹھاریوں ترمیم کے بعد صرف ایک کام ہے جو صدر پاکستان کرتا ہے اس کے علاوہ ویسے بھی سیاسی صدر کے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں ہوتا۔دوسری طرف عمران خان کی جماعت سے موقف اختیار کیا ہے کہ چیئرمین نیب بنانے میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی بلکہ ایسا ہی ہوا ہو گا کیونکہ محترم جناب عمران خان اور ان کے تمام حواری اس کے ہی مستحق تھے بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی تو جناب دھرنے کے شروع ہونے سے لیکر آج کی تاریخ تک کوئی ایک کام بتا دیں عمران اینڈ کمپنی نے کسی بھی قسم کی کوئی ترمیم جمع کروائی ہو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں کئی بار انہی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان کو آئینی ترامیم کی طرف اور اصلاحات کی طرف آنا چاہئے تا کہ 20ترمیم کے بعد جو مک مکا کی صورتحال پائی جاتی ہے اس کا خاتمہ ہو سکے مگر وہ موصوف دھرنا دھرنا کھیلتے رہے اور
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
کے مصداق بلکہ
ابھی تو شروعات ہے ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
کیونکہ ابھی تو نگران وزیراعظم ، وزیراعلیٰ اور کابینہ کے معاملے بھی اپوزیشن لیڈر اور حکمران جماعت میں ہی طے ہونے ہیں اور ہمارے پی ٹی آئی والے بیچارے اپنی اندرونی جنگوں میں ہی مصروف ہیں۔ بہر حال اب آتے ہیں نئے چیئرمین نیب جناب جاوید اقبال کی طرف اور ان کا زائچہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں شہرت کے لحاظ سے شریف آدمی ہیں مگر ہمارے میڈیا کے کچھ اداروں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ کسی بھی شریف النفس جس کو کسی عہدہ پر لگایا جائے اس کے خلاف کچھ گند بولنا ضروری سمجھا جاتا ہے اور اپنا ریٹ بڑھایا جاتا ہے ۔کہانی شروع کرتے ہیں مشرف دور سے ، پی سی او کا حلف لینے پر جنرل پرویز مشرف نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کو سنہ 2000 میں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا لیکن دو نومبر2007 میں انھوں نے پرویز مشرف کی ایمرجنسی کو قبول کرنے سے انکار کیا اور گھر پر نظر بند رہے۔اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد سے گرفتاری کے معاملے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اس وقت کے انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے پیغام بھیجا کہ خود پیش ہوں گے یا بندے بھیج کر بلوایا جائے؟
انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ اگلی پیشی پر موجود تھے۔
اسی کمیشن نے مسلح افواج کے سربراہوں کو بلایا لیکن برّی فوج کے سربراہ نہیں آئے۔ جسٹس جاوید اقبال کی ہدایت پر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔
یہ دو واقعات نیب کے نئے سربراہ جسٹس جاوید اقبال کے ساتھ کئی برس کام کرنے والے ان کے بعض ساتھیوں کی نظر میں ان کی شخصیت اور کام کرنے کی صلاحیت کی درست نمائندگی کرتے ہیں۔
اپنے ساتھیوں میں وہ ایک دیانت دار فرد کے طور پر جانے جاتے ہیں جو سرکاری خزانے کو اتنی احتیاط سے خرچ کرتے رہے ہیں کہ ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے انھوں نے نا صرف یہ کہ تنخواہ لینے سے انکار کیا بلکہ کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے غیر ضروری پروٹوکول اور گاڑیاں بھی استعمال کرنے سے گریز کرتے رہے۔
ستر کا پیٹا عبور کرنے کے باوجود ان کی کام کرنے کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت بہت سوں سے بہتر ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کے کئی کئی گھنٹے جاری رہنے والے اجلاسوں کے بعد جب بھلے چنگے لوگ تھکے قدموں سے گھروں کی راہ لیتے، جسٹس جاوید کی ڈیوٹی پر تازہ دم اسٹینو بلوائے جاتے جنھیں وہ اجلاس کی کارروائی کی روداد لکھواتے۔ ویسے تو یہ کام ایک افسر کے ذمے تھا لیکن حساس بیانات جسٹس جاوید خود نوٹ کرواتے رہے۔
ایک موقع پر کمیشن کے ارکان نے ایبٹ آباد میں اس مکان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا جہاں اسامہ بن لادن کئی سال روپوش رہے۔ ایبٹ آباد روانگی سے کچھ دیر قبل سکیورٹی حکام نے کمیشن کے ارکان کو بتایا کہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اس دورے کے دوران کمیشن کے ارکان پر دہشت گرد حملہ کیا جائے گا۔ بیشتر ارکان اور عملے کے افراد نے دورہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا لیکن جسٹس جاوید اقبال ڈٹ گئے اور پروگرام میں تبدیلی کو غیر ضروری قرار دیا۔
جبری طور پر لاپتہ افراد کے کمیشن کے سربراہ کے طور پر بھی جسٹس جاوید اقبال کے بارے میں سائلین اور حکام ملے جلے جذبات رکھتے ہیں۔ انھوں نے کئی ایسے لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھایا جن کی کہیں شنوائی نہیں تھی۔ کئی کو بازیاب کروانے کے احکامات جاری کیے لیکن معاملات جب خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام تک پہنچے تو بعض سائلین کے مطابق معاملات لٹکتے چلے گئے۔بلکہ آج کی تاریخ تک بھی لگ بھگ 7000ہزار افراد لاپتہ ہیں جن کے بارے بتانے والا کوئی نہیں یہ ایک ایسا المیہ اور سیاہ دھبہ ہے جو شاید ہی کبھی دھل سکے،
انھوں نے منتخب حکومت کو برطرف کرنے والے فوجی سربراہ کے بنائے گئے آئینی حکم نامے کی پاسداری بھی کی اور مخالفت بھی۔ انہیں پی سی او کا حلف لینے پر جنرل پرویز مشرف نے سنہ 2000 میں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا لیکن دو نومبر 2007 میں انھوں نے پرویز مشرف کی ایمرجنسی کو قبول کرنے سے انکار کیا اور گھر پر نظر بند رہے۔
درج بالا واقعات سے نیب کے نئے سربراہ کی شخصیت میں بعض تضادات کا شائبہ ملتا ہے لیکن ان کے ساتھ کئی برس تک کام کرنے والے اس کی وضاحت ذرا مختلف انداز میں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جج صاحب اس نکتے کو بہت اچھی طرح سمجھتے اور استعمال کرتے ہیں کہ کہاں ناں کرنی ہے اور کہاں ہاں۔ کب کس جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے اور کہاں خاموشی میں ہی عافیت ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جج صاحب کی یہی خوبی شاید مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھا گئی کیونکہ ان دونوں جماعتوں کے سربراہوں کو نیب کے لیے شائد اسی طرح کے سربراہ کی تلاش تھی۔
باقی پیارے یہ پاکستان ہے یہاں آنے کا بھی نہیں پتا چلتا اور جانے کا بھی نہیں اﷲخیر کرے اور ان کو اچھے کاموں کی توفیق دے اور طاقت دے کہ وہ کرپٹ مافیا کیخلاف علم حق بلند کر سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button