ماہ دسمبر اور پاکستان میں دہشتگردی کی تاریخ !!!
1971کے بعد 2014کا دسمبر پاکستانی تاریخ کا سیاہ سال سمجھا جاتا ہے جس میں پاکستان دولخت ہوا اور وم کے معماروں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ۔اس کا دکھ کسی باپ اور ماں سے پوچھو جس کا لخت جگر اس کی آنکھوں کے سامنے شہادت کی چادر اوڑھے پڑا ہو۔
بہر حال اس سال بھی دسمبر آتے ہی پنجاب کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے حوالے سے محکمہ داخلہ کی طرف سے ایک سرکولر جاری کیا گیا کہ ہسپتالوں اور سکولوں میں حملے ہو سکتے ہیں۔اس جاری کردہ سکیورٹی الرٹ کے باوجود دارالحکومت لاہور کے بیشتر بڑے سرکاری ہسپتالوں میں سکیورٹی کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میو ہسپتال، گنگا رام ہسپتال، پنجاب ڈینٹل ہسپتال سمیت دیگر بڑے ہسپتالوں کے حفاظتی انتظامات سکیورٹی کمپنیوں کو دیئے گئے ہیں۔ ان کمپنیوں کی طرف سے ہسپتالوں سے طے شدہ تنخواہ سے کم تنخواہ پر سکیورٹی گارڈ تعینات کیے گئے ہیں کچھ گارڈز کو کئی کئی ماہ سے تنخواہ بھی نہیں ملی۔ ہسپتالوں کی انتظامیہ کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں۔ لاہور میں تمام سرکاری ہسپتالوں کی سکیورٹی ٹھیکے پر ہے اور نجی سکیورٹی کمپنیوں کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں کو سکیورٹی کی مد میں بھاری رقوم دی جا رہی ہیں، ان کے زیادہ تر سکیورٹی گارڈ غیر تربیت یافتہ ہیں۔ کئی ایسے گارڈ بھی ہیں جو گھروں سے بھاگے ہوئے ہیں اور ان کا مکمل ریکارڈ بھی محفوظ نہیں۔ اس حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے گارڈ بھی ہیں جن کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی نہیں ہیں۔ کئی ہسپتالوں میں طے شدہ اور ضرورت سے کم سکیورٹی گارڈ ہیں۔ کئی ایسے افراد بھی گارڈ کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں جن کو داتا دربار سے پکڑا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ سکیورٹی کمپنی نے ان غیر تربیت یافتہ افراد کو اسلحہ بھی دے رکھا ہے یہ اسلحہ بھی غیر معیاری ہے اور استعمال کرنے والے بھی اناڑی ہیں جو کسی ہنگامی صورت سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے بلکہ وہ کسی معمول کی صورت میں بھی ان کے پاس موجود اسلحہ کے غلط استعمال سے کوئی بھی ہنگامی صورت حال پیدا کر سکتے ہیں۔ ہسپتال کا ٹھیکہ 6 لاکھ نوے ہزار روپے ماہانہ ہے مگر ہسپتالوں کی انتظامیہ نے اس جانب سے آنکھیں بند کر رکھی ہے سکیورٹی گارڈ کی تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ مقرر ہے مگر ان کو 12، 13 ہزار روپے تک تنخواہ دی جا رہی ہے۔ ایک ہسپتال کے سکیورٹی انچارج کا کہنا ہے کہ گارڈز کی بھرتی کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ گارڈز کی روزانہ کی بنیاد پر حاضری چیک کی جاتی ہے اور ان کی تعداد پوری ہوتی ہے۔ 16 دسمبر 2014 ءمیں آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد پورے ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد جاری ہے۔ اگرچہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے مگر اس کے باوجود ان میں سے کچھ یہاں موجود ہیں اور کچھ فاٹا اور پاک افغان سرحد پار کر کے پاکستان آ کر دہشت گردی کی کارروائی کرتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد سے دہشت گردوں کو خاص اہداف کو نشانہ بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے اس لیے اب انہوں پولیس افسروں کی ٹارگٹ ہلاکتوں اور نرم اہداف کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ 12 ربیع الاول کو پشاور کے ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پر حملہ اسی سلسلے کی کڑی تھی جس سے کئی بے گناہ شہری نشانہ بنے اور کئی زخمی ہوئے۔ لاہور کے ہسپتالوں کے بارے میں رپورٹ نہایت تشویشناک ہے کیونکہ ناقص سکیورٹی سے تمام ہسپتال آسان ہدف بن چکے ہیں۔ اس رپورٹ پر محکمہ صحت اور تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کو چوکنا ہونا چاہیے اور ہر ہسپتال اپنی اپنی سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لے اور اس کو انتہائی جامع اور فول پروف بنائے۔ اس ضمن میں ٹھیکیداری سسٹم ختم کرنے سکیورٹی کا جامع منصوبہ بنا کر ایس او پی طے کیے جائیں اور پھر یہ ہسپتال کی ضرورت کے مطابق سکیورٹی عملہ تعینات اور آلات و ہتھیار دیئے جائیں۔ ہسپتالوں کے داخلی و خارجی راستوں پر تمام طرح کی سکیورٹی مہیا کی جائے تا کہ دہشت گرد کسی ہسپتال کو نشانہ نہ بنا سکیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ صوبائی وزیر صحت، محکمہ صحت اور ہسپتالوں کی انتظامیہ اس حوالے سے بروقت اقدام کر کے تمام ہسپتالوں کو محفوظ بنا کر دہشت گردوں کے منفی عزائم ناکام دیں گے۔