Tayyab Mumtaz

اورنج ٹرین بمقابلہ تعلیم اور صحت عامہ

کسی بھی قوم کا معیار زندگی پوری دنیا میں جانچنے کا طریقہ اس کی تعلیمی استعداد سے لگایا جا سکتا ہے یا لگایا جاتا ہے ۔پاکستان میں اس کے بالکل برعکس ہے وہاں پر اس کا پیمانہ سڑکوں،روڈوں اور پلوں سے لگایا جاتا ہے ۔پاکستان میں شعبہ صحت ہو یا تعلیم سب کا برا حال ہے اور حکومت کا اس طرف کوئی دھیان بھی نہیں ہے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کا خاندان تین دہائیوں سے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ حکومت میں ہیں ۔مگر ان شعبوں میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ۔پنجاب میں وزیراعلیٰ کی جانب سے ’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘ کے نعرے کی تکمیل میں محکمہ تعلیم سکول ایجوکیشن کی غفلت کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ اس وقت محکمہ تعلیم سکول ایجوکیشن کی غفلت کی وجہ سے صوبے کے 1300 سکول ہیڈماسٹروں اور ہیڈ مسٹریسوں کے بغیر چل رہے ہیں۔ اس کی وجہ گزشتہ دو برس سے گریڈ 19 اور 20 میں اساتذہ کی ترقیاں نہ ہونا ہے۔ اس وقت گریڈ 20 کے 275 اور گریڈ 19 کے 650 مرد اور خواتین اساتذہ کی سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ محکمہ سکول ایجوکیشن کی طرف سے گریڈ 18 اور گریڈ 17 میں ترقی کا سلسلہ بھی انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ اس وقت پنجاب میں مرد اساتذہ کی گریڈ 18 کی 1000 جبکہ خواتین اساتذہ کی 650 سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ صوبے میں سبجیکٹ سپیشلسٹ اساتذہ کی 600 سے زائد سیٹوں پر کوئی تعیناتی نہیں کی گئی۔ 2017ءکا سال مکمل ہونے میں چنددن باقی رہ گئے ہیں اگر ترقیاں اس سال بھی نہ ہوئیں تو آئندہ برس بوجھ اور بڑھ جائے گا۔ ترقیاں نہ ہونے سے اساتذہ میں بے چینی ہے اور وہ مسلسل احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے 2013ءمیں وعدہ کئے جانے کے باوجود 1200 سے زائدسبجیکٹ سپیشلسٹ اور ہیڈماسٹروں کو بھی ریگولر نہیں کیا گیا۔ بیوروکریسی اور سرکاری حکام ہمیشہ اس امر کی توقع رکھتے ہیں کہ تمام سرکاری اہلکار اپنی ڈیوٹی ذمہ داری اور دیانتداری کے ساتھ انجام دیں مگر وہ خود اپنے فرائض ادا کرنے میں ہمیشہ غیرمعمولی غفلت اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حکومت تعلیم کے معیار کی بہتری کے لئے بہت سے منصوبے بناتی ہے اور ان کے لئے فنڈز بھی فراہم کئے جاتے ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام کاوشوں کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں خصوصاً سکولوں میں تعلیم کا معیار بہتر ہونے کی بجائے دن بدن کم ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال بورڈ کے امتحانی نتائج اور سرکاری سکولوں میں طلباءکی کامیابی کے تناسب سے عیاں ہو جاتی ہے۔ اگر اساتذہ کو ترقی نہ دینے سے 1300 سکولوں میں اداروں کے سربراہ ہی نہیں تو تعلیم کا معیار کیسے بہتر ہو گا۔ اس وقت محکمہ تعلیم میں کئی سیٹیں خالی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ ہنگامی طور پر ان سیٹوں پر میرٹ کے مطابق اساتذہ کو ترقی دے تاکہ وہ اپنی اہلیت کے مطابق اپنے تجربے کے مطابق عہدوں پر کام کر سکیں جہاں پروموٹ ہونے سے انہیں نہ صرف ترقی ملے گی بلکہ ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہو گا جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ اس کے ساتھ یہ اہم امر ہے کہ 1300 اداروں میں سربراہ ادارہ نہ ہونے سے وہ تمام خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں جو تعلیم کے لئے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ محکمہ تعلیم اس امر کا جواب دہ ہے کہ دو سال سے محکمہ میں ترقیاں کیوں نہیں ہوئیں اور 1300 سکول کیوں ہیڈماسٹروں کے بغیر ہیں۔ اس معاملے میں متعلقہ وزیر بھی وضاحت کریں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ محکمہ اب تمام معاملات کو ایک طرف رکھ کر فوراً پروموشن بورڈ کا اجلاس بلا کر اساتذہ کو ترقی دینے کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرے اور 1300 سکولوں میں اداروں کے سربراہ تعینات کرے تاکہ تعلیم کے میدان میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس خرابی کا ازالہ ہو سکے۔یہی حال ہسپتالوں کا ہے کہیں ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں تو کہیں پیرامیڈیکل سٹاف ،کہیں بچوں کے داخلے رکے ہوئے ہیں اور کہیں میرٹ لسٹ کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اس سال جو حال میڈیکل کے طلبہ و طالبات کا ہوا ہے خدا کی پناہ اس سے لوگوں میں سراسیمگی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے جن کے داخلے ہوئے ہیں وہ بھی اور جن کے نہیں ہو سکے وہ بھی ابھی تک اسی کشمکش میں ہیں کہ خدا جانے اب کیا ہو گا۔
خدا کرے کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ قوم کی حالت پر رحم کرے اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرے دوسری طرف ہماری قوم کو چاہئے کہ آنے والے دنوں میں ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو ان کے مسائل کو سمجھ سکیں نہ کہ اسمبلیوں میں جا کر کھیل تماشے اور دنگوں میں مشغول رہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button