دہشت گردی سے کون نجات دلائے گا؟
کچھ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ “ نوازشریف کے جیل جانے کے بعد فوج میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے اور اس چیز کا ڈر ہے کہ فوج میں کہیں تقسیم نہ آ جائے۔
دھرنے کے دوران جب مارشل لاءکی بات چلی تو4 جرنیل اسکے حق میں اور12 مارشل لاءکے خلاف تھے جس کی وجہ سے اس وقت مارشل لاءکا خطرہ ٹل گیا تھا، مگر موجودہ سیٹ اپ نے اس بار ہوشیاری سے کام کیا اور خود سامنے آنے کی بجائے ججز کو استعمال کیا مگر اس کے باوجود پہلے والی بے چینی اب بھی موجود ہے جو کہ اس ادارے کے لیے نقصان دہ ہے ۔
عالمی میڈیا میں فوج کے خلاف بڑھتا ہوا منفی تاثر بھی پاکستان کے کیلئے بہت خطرناک ہے جہاں پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے حوالے سے پہلے ہی بہت سارے سوالات گردش کرتے رہتے ہیں ایسی صورتحال میں اندرونی خلفشار ملک کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے حالات سے نبٹنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہمیں اندرونی مسائل پہ جلد توجہ دینی ہوگی۔ اگر خدانخواستہ فوج کے اندر بغاوت جیسی صورت حال پیدا ہو گئی تو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا”
دوسری طرف ملک ہے کہ دہشتگردی کی نئی لہر دوڑ چکی ہے ایک ہفتے میں کئی خودکش دھماکے ہوئے سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں،مگر سیکیورٹی ایجنسز سوائے سرکلر جاری کرنے کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔دوسری طرف سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور متاثرہ جماعتیں الیکشن پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں کہ یہ ہماری اپنی ایجنسیوں کی کارستانیاں ہیں۔
سب سے زیادہ نقصان مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابی جلسہ میں ہوا جس میں بم دھماکے میں 130 افراد شہید ہونے کے بعد فضاءانتہائی سوگوار ہو گئی اور چار دنوں میں انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کا تیسرا حملہ ہوا جو مہلک ترین تھا۔ مستونگ کے واقعہ میں اس حلقہ سے انتخاب میں حصہ لینے والے نواب زادہ سراج رئیسانی بھی حملہ کا نشانہ بن گئے۔ یہ حملہ جمعہ کی شام کو ہوا جبکہ جمعہ کی صبح دس بجے کے قریب بنوں میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار قومی اسمبلی اکرم درانی کے انتخابی قافلے کو بم کا نشانہ بنایا گیا اس واقعہ میں5 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔ اس حملے میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم درانی بال بال بچے۔ موجودہ انتخابی مہم میں پہلا بڑا حملہ 10 جولائی کی شب پونے گیارہ بجے پشاور کے علاقے یکہ توت میں اے این پی کی انتخابی مہم کے دوران ہوا تھا جب ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے لیے پارٹی کے امیدوار ہارون بلور پہنچے تو خود کش حملہ آورنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ جس کے نتیجہ میں ہارون بلور کے علاوہ 21 دوسرے کارکن بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مستونگ میں ہونے والا واقعہ انتہائی ہولناک تھا۔ پاکستان میں کسی انتخابی جلسے کے دوران اس سے زیادہ تباہ کن حملہ نہیں ہوا۔ اس واقعہ میں 130 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی سٹیج پر پہنچے ہی تھے کہ جلسہ گاہ میں زور دار دھماکہ ہو گیا جسے خود کش قرار دیا جا رہا ہے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کا کہنا ہے کہ دھماکے میں 16 سے 20 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔ دھماکے کے بعد پنڈال میں ہر طرف لاشیں بکھر گئیں۔ زخمیوں کی چیخ و پکار سے قیامت کا منظر تھا۔ زخمیوں اور لاشوں کو مقامی ہسپتالوں کے علاوہ کوئٹہ کے ہسپتالوں میں بھجوا دیا گیا۔ دھماکے کے بعد اعلیٰ حکام اور سکیورٹی کے علاوہ امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور امدادی کام شروع کر دیا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں اتنا بڑا واقعہ اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آیا۔ اس واقعہ پر بلوچستان عوامی پارٹی نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا جبکہ حکومت بلوچستان نے دو روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ حکومت بلوچستان نے امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی طلب کیاہے۔ ملک بھرکی سیاسی قیادت نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔دنیا کے کئی رہنماو¿ں نے ہمدردی کے بیانات جاری کیے ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت ہے کہ عام انتخابات کے دہانے پر کھڑی قوم کے سینوں پر پھنکارے جارہا ہے۔ سیاسی جلسوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کی گرفتاری یا نشاندہی میں ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ عوام اس صورت حال میں یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔دہشت گردی کے پے در پے دھماکے جب کہ عام انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور خود آرمی چیف نے کہا ہے کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ در پیش صورت حال نے مقتدر قوتوں کے سامنے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ تینوں دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے عہد میں جب 15 جون 2014 ءسے ضرب عضب آپریشن شروع ہوا اور پشاور میں پاک آرمی سکول کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہوتا ہوا اپنی انتہا کو پہنچا تو پوری قوم کو باور کرایا گیا کہ دہشت گردی کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی ہے اس پورے آپریشن کا ہدف دہشت گردوں کی سب سے بڑی تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور اس کی ذیلی تنظیمیں تھیں۔ آپریشن ضرب عضب نے اپنے آخری مہینوں کے دوران شمالی وزیرستان کے اندر واقع شانگلہ کے مقام پر جو دہشت گردوں کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا کارروائیاں کر کے قوم کو مژدہ سنایا گیا کہ اس عفریت کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا گیا ہے اس کے بعد پھر چند خوف ناک قسم کے واقعات ہوئے تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک آرمی کی کمان سنبھالنے کے بعد آپریشن ردالفساد کا بڑے زور و شور سے آغاز کیا اور کہا گیا کہ آپریشن ضرب عضب کے تحت دہشت گردی کے خلاف جو کارروائیاں مکمل نہیں ہو سکی تھیں انہیں ردالفساد کے نام اور عنوان کے ساتھ مربوط طریقے سے پایہ¿ تکمیل تک پہنچا دیا جائے گا۔ اس کا آغاز ہو گیا۔ قوم نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ اب دہشت گردوں پر اتنا خوف مسلط ہو جائے گا یا وہ یہ مذموم مشغلہ چھوڑ دیں گے یا بھاگ کر افغانستان وغیرہ چلے جائیں گے کیونکہ پاکستان کی سرزمین پر ان کا عرصہ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ یہاں قدم رکھنے کا دم نہیں لیں گے۔ قوم کو بار بار باور کرایا گیا کہ اب ہم امن و سکون کی زندگی گزارنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ آپریشن ردالفساد کے تحت بھی تحریک طالبان پاکستان اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خلاف جو مدت سے دہشت گرد قرار دی جا چکی ہیں اور اس کا وجود قانوناً ممنوع ہے بہت سی کارروائیاں کی گئیں اور قوم کو کچھ ایسا تاثر ملا کہ سب کا وجود نیست و نابود کر کے رکھ دیا جائے گا۔مگر افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ
اگر کانٹوں کی فصل بوئی جائے تو کانٹے ہی ملیں گے اس سے پھول یا پھل تو حاصل ہونے سے رہا،جب ہم ” گڈ اور بیڈ طالبان“ کی اختراع خود ہی رکھیں گے اور ہمارا دوہرا معیار ہو گا تو پھر ”گڈ“ کو ” بیڈ“ ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی ۔ اور ویسے بھی پیسوں کے لیے بکنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ پیسوں کے لیے اگر کسی غیر ملکی فوج یا غیر مذہب کے افراد کو ہلاک کر سکتے ہیں تو انہیں سے ڈالر لیکر اپنوں کو کیوں نہیں مار سکتے۔ جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات