Tayyab Mumtaz

چائلڈ لیبر اور اشرافیہ قوانین کیساتھ عمل ضروری

اسلام آباد ہائی کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں وفاق کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے مجرمان سابق جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کی سزا ایک سال سے بڑھا کر تین سال کر دی ہے جب کہ مجرمان کے لیے جرمانہ بھی 50 ہزار روپے سے بڑھا کر اڑھائی اڑھائی لاکھ روپے فی کس کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں ایک ہفتے میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے بطور ٹرائل کورٹ اس کیس کی سماعت کی تھی اور ملزم راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کو ایک ایک برس قید کی سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دو رکنی بینچ کے سامنے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی گئی تھی جس میں مجرموں نے فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ ملزمان کی سزا کے خلاف وفاق نے بھی اپیل دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملزمان کو ٹرائل کورٹ نے کم سزا دی ہے اس میں اضافہ کیا جائے۔ ڈویژن بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے سزا کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سزا تین سال کر دی۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد مجرمان سابق جج اور ان کی اہلیہ کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔ طیبہ تشدد کیس میں کئی اتار چڑھاﺅ آئے اور بالآخر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ جس کو خوش آئند سمجھا جا سکتا ہے مگر قوانین میں بہتری ،سزاﺅں میں اضافے کیساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد کروانا بھی بہت اہم ہے کیونکہ گھروں میں ملازمین سے ناروا سلوک اور تشدد کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ ان میں مقدمات بھی قائم ہوئے اور گرفتاریوں بھی ہوئیں۔ لاہور میں گزشتہ چند برسوں میں متعدد گھریلو ملازم تشدد کے نتیجے میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ طیبہ کے معاملے میں مجرمان نے ابتدا میں تشدد کرنے سے انکار کیا تھا ۔ تاہم بعد میں سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر مقدمہ درج کرنے کے بعد تفتیش کی گئی اور چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ راجہ خرم نے اس معاملے میں بچی اور اس کے والدین کے ساتھ صلح کی بھی کوشش کی تاہم وہ اپنی اس کوشش میں عدالتی مداخلت کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔ اب ڈویژن بینچ نے 3-3 سال قید اور جرمانے کی سزا دی ہے جس پر مجرمان سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔ گھریلو ملازم پر تشدد کے مقدمے میں یہ نمایاں ترین کیس ہے۔ پاکستان میں کم سن بچوں کو ملازمت سے قانون روکتا ہے تاہم گھروں میں بطور گھریلو ملازم بچوں سے کام لیا جاتا ہے۔ ان بچوں کے تحفظ ان کے معاوضے کے بارے میں واضح قوانین موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے ایسا کیس ہونے کی صورت میں کوئی واضح راستہ موجود نہیں۔ بڑے شہروں میں ایسے معاملات سامنے آ جاتے ہیں۔ لیکن چھوٹے شہروں اور دیہات میں بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں نے ملازم نہیں غلام رکھے ہوئے ہیں ان سے نہ صرف کام لیا جاتا ہے بلکہ ان پر جسمانی تشدد کے علاوہ ان کو جنسی زیادتی کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن ان بے زبان افراد کی فریاد نہ کسی حکومت تک پہنچی ہے نہ عدلیہ کے در پر دستک دیتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو واضح قوانین تیار کرنے کے ساتھ ان پر عمل در آمد کا مکینزم تیار کرنا چاہیے اور قانون کارروائی کا نظام ہونا چاہیے ۔ اس میں اگر کہیں تشدد ہو تو اس کی تلافی کا بھی راستہ رکھنا چاہیے۔ طیبہ تشدد کیس میں اگر مجرم راجہ خرم کسی طرح سے بچی کے خاندان سے زر تلافی دے کر صلح کرنا چاہے تو اس کا راستہ ہونا چاہیے۔ اس کیس کے فیصلہ سے ایک ایڈیشنل جج اور ان کی اہلیہ کو سزا دی گئی ہے اس سے ان کا خاندان بھی ٹوٹ کر رہ گیا ہے۔ اسلام میں قاتل کو بھی دیت لے کر معاف کیا جا سکتا ہے۔ تو بچوں پر تشدد کے معاملہ میں بھی معافی کا راستہ رکھا جائے۔مگر اس میں بہت سے ایسے بچے بھی ہیں جو خطرناک ماحول ،فیکٹریوں ،کارخانوں اور دکانوں میں کام کرتے ہیں جن کو عرف عام میں ”چھوٹو“ کہا جاتا ہے کاش کہ ہمارے معاشرے میں ان چھوٹوں کیلئے بھی زندگی موجود ہو جس میں وہ اپنے ارمانوں اپنی خواہشات کیساتھ زندہ رہ سکیں اور ہمارے ملک خداداد کا مستقبل جو ان ننھے ہاتھوں میں ہو گا توانا اور پڑھا لکھا مستقبل بن سکے ۔اس معاملے میں صرف حکومت اداروں کے علاوہ معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button