Tayyab Mumtaz

بے پیندے لوٹوں کی سیاست

الیکشن کمیشن کے مطابق آئندہ عام انتخابات 27یا 28جولائی کو ہونے جا رہے ہیں۔اس حساب سے کم و بیش اڑھائی ماہ باقی رہ گئے ہیں جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ”لوٹے“خزاں کے پتوں کی طرح فضا میں اڑ رہے ہیں زیادہ کا جھکاﺅ پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ایک اندازے کے مطابق ابھی تک 50سے زائد electables پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ باقی جماعتیں جن میں ق لیگ ،پی پی پی ،اے این پی اور ایم کیو ایم بھی حصہ بقد جثہ electables کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملکی سیاست ان لوگوں کے پاس ہی رہنی ہے جوذرا دیر نہیں لگاتے پارٹی تبدیل کرنے میں تو ہمارے ملک کی سیاست ان کے ہاتھوں ہی بلیک میل ہوتی رہے گی۔کیا جو نظریات کی سیاست عمران خان ،بلاول اور نواز شریف جس کی بات کرتے ہیں وہ صرف الفاظ تک ہی رہے گی ؟
لوگ آجکل صبح شام جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔بہاولپور کا خسرو بختیار ہو کہ مس بھروانہ ہوں ،صاحبزادہ سلطان سرگودھا سے ہوں کہ چن برادری پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے لیڈران بشمول عمران خان سے جب اس بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم کسی کو پارٹی میں آنے سے نہیں روک سکتے۔اصل فیصلہ تب ہو گا جب ہم ان لوگوں کو ٹکٹس دیں گے جن لوگوں نے ہر حال میں الیکشن لڑنا ہے اب سوال یہ پید اہوتا ہے کیا وہ پی ٹی آئی میں اپنے نظریات کی وجہ سے آرہے ہیں ؟
کیا عمران خان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ سلطان صاحبزادہ 1970ءسے الیکشن لڑتا آرہا ہے۔اگر پی ٹی آئی ان کو ٹکٹ نہ دے گی تو کیا وہ الیکشن نہ لڑیں گے ؟
اسی طرح پارٹی کے وہ لوگ جو شروع دن سے جماعت کے ساتھ ہیں پارٹی کسی اور کو اوپر سے ٹکٹ دے گی تو ان کا کیا بنے گا ؟کیا عمران خان ٹکٹوں کے معاملے میں انصاف کر پائیں گے ؟کیا وہ وعدے وعید جو زیادہ تر ان لوگوں کے ساتھ کئے گئے ہیں جو ان کا پارٹی میں شامل کرنے کا موجب بنے توڑ پائیں گئے ؟
بہرحال اس وقت ایسا ہی لگ رہا ہے۔پی ٹی آئی ایک بڑی جماعت کے طور پر الیکشن میں جا رہی ہے۔اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان نام نہاد لوگوں کو لیکر جاتے ہیں یا الیکشن جیتنے کی کوشش کریں گے۔ بات اب کرتے ہیں مسلم لیگ ن کی چونکہ ان کی پارٹی پہ اب برا وقت چل رہا ہے لہٰذا پارٹی میں شامل ہونے والوں کی تعداد جانے والوں سے کم ہے ،اکا دکا جس میں پی ٹی آئی کے لوگ بھی شامل ہیں جن کو لگتا ہے کہ ٹکٹ نہیں ملے گا وہ ن لیگ میں جا رہے ہیں۔پچھلے ہفتے پی ٹی آئی کی ممبرقومی اسمبلی ن لیگ میں شامل ہوئی یہ وہی ایم این اے ہیں جنہوں نے دھرنوں میں عمران خان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ سینٹ کے الیکشن میں مشاہد حسین سید کو نون لیگ نے نہ صرف ٹکٹ دیا بلکہ منتخب بھی کروایا یہ وہی مشاہد حسین ہیں جو مشرف کے قریبی تھے اور ق لیگ کے جنرل سیکرٹری بھی۔اسی طرح پی پی پی بھی اپنے ساتھ آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہے۔چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی باہر سے آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ پی ایم ایل این کی لیڈر شپ اسٹیبلشمنٹ کے سر تھونپ رہی ہے کہ ان کی وجہ سے لوگ جا رہے ہیں۔مان لیتے ہیں کہ ان کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن ووٹ تو عوام نے ڈالنے ہیں۔کیا یہ جمہوری اصولوں کی صریحاً نفی نہیں۔ آجکل سیاسی میدان میں جس طرح افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام ہے اس کا الزام ہم کس کے سر تھونپیں ؟ کیا جس طرح کے الزامات سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پہ لگا رہی ہیں اور جو زبان استعمال کی جاتی ہے کیا اس کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ ہے؟ بڑی عجیب اور غریب بات ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈران ہر اس عمل کا جس کا جواب انکے پاس نہیں ہوتا الزام اسٹیبلشمنٹ پہ ڈال دیتے ہیں۔ یقیناً اسٹیبلشمنٹ لوگوں کی پارٹیاں تبدیل کروا رہی ہے مسلم لیگ ن نے 2013ءکا الیکشن اسٹیبلشمنٹ کے سر پہ جیتا بقول ان کے اب اسٹیبلشمنٹ انکے ساتھ نہیں ہے جو کام انہوں نے کیا وہ سارا بے معانی ہو جائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن میں اچھا برا کردار ادا کیا۔ یہ 2018ءہے اب آزاد عدالتیں ہیں۔ایک نام نہاد خود مختار میڈیا ،سوشل میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور ہماری پہلے سے زیادہ باخبر عوام۔میرے خیال میں آئندہ کے انتخابات صرف اور صرف پرفارمنس پہ لڑے جائیں گے۔ پی ایم ایل این اس وعدے کے ساتھ الیکشن میں آئی تھی کہ ملک میں اندھیرے ختم ہو جائیں گے۔ بجلی کے بحران کو حل کیا جائے گا۔ملک کو ترقی کی راہ پہ ڈال دیا جائیگا اگر ن لیگ نے یہ سب کیا تو عوام کو اس کا ادراک ہو گا۔ خصوصاً پنجاب کے لوگ اس بات سے آگاہ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بے شک لوگوں کو آگے پیچھے کرے لیکن جی ٹی روڈ پہ جو لوگ ووٹ دیں گے وہ پر فارمنس پہ دیں گے۔ کے پی کے کی حکومت بھی پانچ سال سے حکومت میں ہے۔ عوام ان سے اپنے ووٹ کا حساب مانگیں گے۔2013ءمیں پی پی پی کی ہارنے کی بڑی وجہ انکی مس گورننس اور کرپشن تھی لہٰذا میں یہ دیکھتا ہوں کہ کالم نگاروں ،دانشوروںاور میڈیا سے وابستہ لوگوں کو عوام کو کسی سازشی تھیوری کے بجائے عمومی طور پر سیاسی اور خصوصاً ان جماعتوں کی جو حکومت میں ہیں کی پرفارمنس پہ بات کرنی چاہئے۔ ہمیں لوگوں کو بتانا چاہئے کب کس پارٹی نے عوام کے لئے کیا کیا ؟
چھوٹی سے مثال جاتے جاتے اگر ترکی کا صدر اپنی عوام میں آج مقبول ہے وہ اس لئے ہے کہ اس نے عوام کو غربت سے نکالا ، فلاح و بہبود کے لئے کام کیا ایک ایسا وقت آیا جب اردگان کے لئے لوگ ٹائروں کے نیچے لیٹ گئے لہٰذا ہمارے سیاست دانوں کو سازشی تھیوری کے بجائے اپنے منشور پہ بات کرنی چاہئے جو جماعتیں حکومت میں ہیں وہ بتائیں انہوں نے کیا کیا اور جو آنا چاہتی ہیں وہ اپنا منشور دیں۔ ان کو بتانا چاہئے کہ وہ کیا دوسروں سے بہتر کرسکتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button