گالی گلوچ کی سیاست ، عدلیہ زیر عتاب
پاکستان کا معاشرہ دینی لحاظ سے بہت اچھا اور صحت مند رہا ہے جس میں اپنے سے بڑے کی عزت احترام اور اپنے سے چھوٹے سے پیار اور محبت سے بات کرنا اس کا اولین حصہ رہا ہے اگر کسی سے یا اپنے بڑے بوڑھوں سے کوئی اختلاف ہو بھی جاتا تھا تو اس کو احترام کے دائرے میں ہی بتایا جاتا تھا کہ نہیں یہ بات اس طرح نہیں اس طرح اگر آپ کریں تو بہتر ہوسکتا ہے ۔ اور اسی طرح اگر بچوں سے کوئی غلطی سرزد ہوتی تو بڑے معنی انداز میں ان کو سمجھانے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتے تھے ۔ مگر ہمارے معاشرے کا یہ روشن اور مثبت پہلو کچھ عرصہ سے ختم ہوتا جا رہا تھا اور اس وقت تو اس معاشرے کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں ہمارے مذہبی رہنما ہوں یا سیاستدان ہمارے اینکر پرسنز ہوں یا تجزیہ نگار ، ہمارے وکلاءہوں یا ججز سب اس حمام میں ننگے ہوچکے ہیں ۔عدلیہ اپنے فیصلوں میں ایسے ایسے الفاظ استعمال کر رہی ہے کہ خدا کی پناہ اور اسی طرح ہمارے سیاست دان اس نہج پر اس قوم کو لے آئے ہیں کہ شاید ہمارا معاشرہ تباہی کی طرف جا چکا ہے اور اس کی واپسی شاید مجھے تو بہت مشکل نظر آ رہی ہے۔ ابھی چند لمحے پہلے ایک جلوس نما احتجاج پر نظر پڑی جس میں سر بازار کسی بھی “چیف” کیخلاف ایسی گندی زبان نہیں سنی ہوگی… یہ رویہ قابل مذمت ہے… نہال ہاشمی ایک ماہ کی قید کے بعد “بندے دا پتر” بن گیا تھا، کیا ان نعرہ بازوں کو عمر قید کی سزا نہیں بنتی؟
پاکستان میں کچھ عرصہ سے ایک گندے کلچر کا آغاز ہوا تھا جو اب اپنی انتہا کو چھونے لگا ہے، پہلے نام نہاد لیڈر اپنے سیاسی مخالفین کو گندی گالیاں دیتے تھے اب عوام بھی اس ڈگر پر چل نکلے ہیں…
فیصلہ سازوں نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر یہ چنگاری پورے معاشرے کو بھسم کرکے رکھ دے گی۔ طاقتوروں کے خلاف پہلے لوگ چاردیواری کے اندر بھی دبے لفظوں میں بات کرتے تھے لیکن اب سر بازار بازاری زبان استعمال کی جارہی ہے خدا کی پناہ ۔
“بظاہری حکمرانوں” کے ساتھ ساتھ “اصل حکمرانوں” اور طاقت کے اصل سر چشموں کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستانی جو دراصل ایک قوم کے بجائے ہجوم بن گئے ہیں اگر اسی طرح نعرے بازی کرنے لگا تو پھر کسی دشمن کی ضرورت باقی نہیں ہے ہمارا پورا معاشرہ ہماری نسلیں اس گندی بازاری زبان کے نیچے ایسے دب جائے گی کہ اس پستی سے نکلنے میں ہمیں شاید صدیاں لگ جائیں،ہمارے ارباب اختیار،سیاستدانوں ، ججز ،ہمارے صحافی بھائیوں اور جرنیلوں کو چاہئے کہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں یہ نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور پھر اس شعر کے مصداق
اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
ہاتھ ملتے رہ جائیں۔