معصوم زینب کا قاتل کون؟ حکومت یا پھر بے حس معاشرہ؟
بے حس معاشرے میں زینب کا بہیمانہ قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں مگر معصوم 7 سالہ ننھی پری کی بے حرمتی اور اس جیسے متعدد واقعات کی بلھے شاہ کے شہر قصور میں وقفے وقفے سے وقوع پذیری نے کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔ کیا ایسے واقعات کی روک تھام صرف حکومت کاکام ہے یا پھر معاشرے سے جڑا ہر شخص اس نظام کا سہولت کار بن رہاہے۔ بعض قوتوں کی جانب سے چند مہینوں سے ملکی سیاسی درجہ حرارت مصنوعی طور پر گرم رکھنے کا جو کام کیا گیا اب وہ معاشرے کے ہر شخص میں نظر آ رہا ہے۔ 2012ءکے پہلے دھرنے سے عدم برداشت کا جو پودا لگایا گیا آج وہ درخت بننے کے ساتھ ساتھ اپنی جڑیں بھی ملک بھر میں پھیلا رہا ہے۔ اسلام آباد آبپارہ کا دھرنا ہو یا پھر زینب کے قتل پر سراپا احتجاج مظاہرین جنہیں انصاف کے حصول کیلئے اکسایا گیا اور اس کے نتیجے میں مزید دو افراد پولیس کی روایتی بربریت کا نشانہ بنے اور دو گھرانوں کے چراغ گل ہو گئے۔ میرے نزدیک بے حسی اور معاشرے میں بگاڑ نے ان دو افراد کو موت کی وادی میں پہنچا دیا۔ درحقیقت سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے محرکات اور اصل کرداروں کو سخت سزا مل جاتی تو آج زنیب کے حق میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ایسا نہ ہوتا مگر افسوس اور دکھ سے یہ بھی کہتا چلوں کہ جب ظلم و جبر ،جنسی بے راہ روی ، جھوٹ اور بہتان تراشی اقربا پروری اپنے عروج پر پہنچ جائے تو پھر معاشرے میں ایسے واقعات کو ختم تو نہیں کیا جاسکتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب سیالکوٹ کے مغیث اور منیب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا،جب باغبانپورہ تھانے میں حوالات کے اندر دو کمسن بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جب دن دیہاڑے ایک استاد کو راہ چلتے قتل کیا گیا،جب بہت سے افراد کو غیرقانونی حراست میں سالہا سال رکھا جاتا رہا، تب بھی سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے خودساختہ علمبرداروں سمیت ہر راہ چلتے نے معاشرے کی بے حسی اور وحشت ودرندگی کا صرف رونا ہی رویاتھا جب زینت شہزادی کو دن دیہاڑے اغواءکیا گیا اس وقت تو کوئی باہر نہ نکلا کہ اسے انصاف دلایا جاسکے۔
ان سارے واقعات کے سدباب کیلئے ہرکسی نے کچھ روز آواز بلند کی ہوتی اور حکومت نے آنکھیں کھولی ہوتیں تو آج زینب کے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ان قاتلوں اور وڈیروں کو سزا ملی ہوتی تو ایسا نہ ہوتا جبکہ وہ قاتل بھی ایک ایک کرکے آج آزاد فضاﺅں میں گھوم رہے ہیں۔ ان سب کی بنیادی وجہ شواہد اور گواہان کا سامنے آنے سے انکار تھا۔ زینب کے قاتل وہ بھی ہیں جن کے سامنے سے درندہ صفت انسان اس معصوم کلی کو لے کر جا رہا تھا اور کسی نے اس بچی کی بے چینی کو نہیں پہچانا اور اس درندے کو بلاخوف اپنے گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کرنے دیا۔ اس کا ذمہ دار وہ پولیس افسر بھی ہے جس کے سامنے زینب کے گھر والے4 جنوری سے درخواستوں پر درخواستیں پیش کرتے رہے اور انہیں انصاف نہیں ملا۔ اسکے ذمہ دار وہ حکمران اور ادارے بھی ہیں جنہیں انصاف دینے کیلئے اللہ نے عہدے بھی دیئے اور اختیار بھی دیا مگر وہ ناکام رہے۔ درحقیقت جب انصاف معاشرے میں کمیاب ہو تو پھر اس معاشرے میں انسان نہیں بلکہ حیوان ہی بستے ہیں ۔ایسا ہی کچھ پاکستان میں کافی عرصہ سے ہو رہا ہے۔ میڈیا کو اگر سیاسی حالات سے فرصت ملے تو ان کو علم ہو کہ سندھ میں کسی ہاری کی بیٹی کے ساتھ جاگیردار کیا کرتا ہے ،بلوچستان میں کسی محنت کش کی عزت کو کیسے سر شام پامال کیا جاتا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں کیسے ملالہ کو تعلیم حاصل کرنے کی سزا ملتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ملک میں بنت حوا کے ساتھ کیا ہوتا ہے مگر افسوس کہ یہاں الزامات کی سیاست کا آغاز ہو جاتا ہے اور حقائق تک پہنچنے سے پہلے ایک اور زینب ہوس کے پجاریوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ انتہائی قابل احترام مولانا طاہر القادری صاحب کی پریس کانفرنس دیکھی افسوس اس لیے ہوا کہ ان کے دائیں بائیں وہی افراد کھڑے تھے جن کی حکومت کو گرانے اور اس بوسیدہ نظام کو اکھاڑنے کیلئے قادری صاحب اسلام آباد گئے اور وہاں انہوں نے اس نظام سے جڑے افراد کو جو کچھ کہا وہ ماضی کسی سے چھپا نہیں۔ آج وہی سب کردار ایک ساتھ موجودہ حکومت کو گرانے کیلئے صف آراءنظر آرہے ہیں۔ کیا بے حس معاشرے میں کوئی بھی یہ سوال نہیں پوچھ سکتا کہ کیا وہ غلط تھے یا آپ غلط تھے؟ کیا عوام کو اپنے اداروں کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے جو بیج آپ نے اس وقت بوئے تھے وہ پودے اب تناور درخت نہیں بن رہے؟۔ زینب کے قاتل گرفتار ہونے چاہئیں بلکہ انہیں سر عام چوک میں پھانسی دینی چاہئے مگر جو دو معصوم افراد عدم برداشت کی بھینٹ چڑھے ان خاندانوں کو کس جرم کی سزا ملی۔ اگر ہر شخص کے اغوا اور قتل کا ذمہ دار وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہے تو جو لوگوں کو ریا ست کے خلاف اکساتے ہیں ان کی سزا کون تجویز کرے گا۔ شہید تو اللہ کے حکم کے مطابق زندہ ہیں مگر ان شہیدوں کے ناموں پر جو سیاست کے دربار ہم نے سجا رکھے ہیں مساجد میں بیٹھ کر جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی مہم جس طرح چلا رہے ہیں اس کو کون روکے گا ؟ معاشرے کی آنکھ میڈیا کو بھی اپنی سیاسی عینکوں کو اتارنا ہو گا اور عدم برداشت کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی۔ورنہ اب وہ دن دور نہیں جب کوئی بھی لشکر لے کر اپنے مطالبات کےلئے آپ کے گھروں میں ہوگا یقیناً اس کو روکا نہ گیا تو پھر جنگل کا قانون ہی رائج ہوگا چاہے ہم جتنی مرضی جمہوری اداروں کی مضبوطی کی باتیں کرلیں جب تک سب طبقے ملکر عدم برداشت کی جنگ میں متحد نہیں ہوں گے ہمیں ایسے دلخراش واقعات کا سامنا ہی رہے گا۔