Tayyab Mumtaz

آئین کی پامالی اور بحالی کس کی ذمہ داری

پاکستان پر فوج کی طاقت سے قبضہ کرنے والے آمروں میں سے اب تک کے آخری جنرل پرویز مشرف کے دماغ سے ابھی تک اقتدار کا نشہ نہیں اترا اور اب بھی یہ سودا سمایا ہواہے کہ وہی پاکستانی قوم کے نجات دہندہ ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں بھی وہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ایک جمہوری حکومت ختم کرکے اور آئین پامال کرکے انہوں نے ملک کو سب سے اچھی جمہوریت عطا کی ہے۔ اس عطا پر ان کے خلاف آئین پامال کرنے پر غداری کا مقدمہ قائم ہے لیکن اس کمانڈ و جنرل میں اتنی ہمت نہیں کہ خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس جائے اور مقدمات کا سامنا کرے۔ ان کے وارنٹ برقرار ہیں اور انہیں اشتہاری ملزم قراردیاہواہے۔ جن افراد نے ان کی ضمانت لی تھی انہیں بھی 5،5 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑاہے۔ موصوف نے پہلے بھی ایک نام نہاد جماعت بنارکھی ہے جو عملاً تو کبھی نظر نہیں آئی لیکن اب وہ 23جماعتوں کا اتحاد بناکر خود اس ملغوبے کا سربراہ بن بیٹھے ہیں۔ اس اتحاد میں زیادہ تر تانگا پارٹیاں شامل ہیں۔ اس کا نام انہوں نے ”پاکستان عوامی اتحاد“ رکھا ہے اگر وہ 23 جماعتیں تو کیا 23افراد ہی اپنے ارد گرد جمع کر سکیں تو بڑی بات ہوگی۔ اس اتحاد میں کچھ ایسی جماعتیں بھی ہیں جن کا کچھ تعلق مذہب سے بھی ہے لیکن کیا وہ ایک شرابی اور ناچ گانے کے رسیا شخص کی سربراہی قبول کرلیں گی؟ پرویز مشرف نے کچھ اور جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔ حیرت ہے کہ ان کی بنائی ہوئی قائد اعظم مسلم لیگ نے ان کو گھاس نہیں ڈالی حالانکہ اس ق لیگ کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے تو یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو وردی سمیت 10مرتبہ صدر منتخب کرائیں گے۔ انہیں ایسا کہنا بھی چاہیے تھا کہ انہی کی وجہ سے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اور بڑے چودھری جناب شجاعت مختصر مدت ہی کے لیے سہی ، وزیراعظم بنائے گئے۔ ق لیگ پرویز مشرف کا حق ہے کہ وہ بھی اس اتحاد میں شامل ہوجائے اور پرویز الٰہی اپنے ہم نام پرویز مشرف کو پھراقتدار میں لانے کے لیے جان لڑادیں۔ لیکن چودھری برادران کو بھی پرویز مشرف کے سیاسی مستقبل کا اندازہ ہے اس لیے ادھر سے کوئی سلسلہ جنبانی نہیں ہوئی۔ اس اتحاد میں جونیجو لیگ، جے یو پی نیازی، مہاجر اتحاد تحریک، کونسل مسلم لیگ، عام آدمی پارٹی ،ملت پارٹی، مساوات پارٹی ،سوشل جسٹس ڈیمو کریٹک وغیرہ شامل ہیں۔ یہ وہ پارٹیاں ہیں جو کبھی بھی عوام کی توجہ حاصل نہیں کر سکیں اور ان میں سے کئی ایسی ہیں جو شجر سے ٹوٹی ہوئی شاخیں ہیں۔ایک پارٹی سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی بنا رکھی ہے، پرویز مشرف انہیں بھی شمولیت کی دعوت دیدیں تاکہ ماضی کی ایسی غلطی کا ازالہ ہوجائے جو ان کی حکومت لے بیٹھی۔ پرویز مشرف خود چلے ہوئے کارتوس ہیں شاید اسی لیے انہوں نے ایسے کئی کارتوس اپنے اسلحہ خانے میں جمع کرلیے۔ لیکن موصوف پاکستان آنے کی ہمت کب کریں گے؟ اس کے لیے انہیں مقتدرطاقتوں کی ضمانت درکار ہے کہ انہیں کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ تو کیا وہ ملک سے باہر بیٹھ کر ہی اس 23جماعتی اتحاد کی سربراہی فرمائیں گے؟ ان پارٹیوں میں سے کسی نے بھی ان سے واپس آنے کی استدعا نہیں کی۔ لیکن وہ بھی تو ملک سے باہر بیٹھ کر اپنی سیاست چلاسکتے اور ان پارٹیوں کی قیادت کر سکتے ہیں۔ آخر الطاف حسین بھی تو برسوں سے لندن میں بیٹھ کر کراچی پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ اور بھی کچھ لوگ ہیں جو کبھی دبئی اور کبھی امریکا میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے بھی روایت کے مطابق آل پاکستان کا سابقہ لگاکر مسلم لیگ بنارکھی ہے۔ اس کے سیکرٹری جنرل معروف وکیل احمد رضا قصوری تھے لیکن وہ بھی الگ ہو گئے۔ پرویز مشرف نے نئے اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”الیکشن سے مسائل حل نہ ہوں توکچھ اور کیاجائے“۔لیکن کیا؟ کیا ایک بار پھر فوج کودعوت دی جارہی ہے کہ آگے بڑھ کر اقتدار سنبھال لے۔ کئی حلقوں کی طرف سے بار بار کہاجارہاہے کہ مارشل لا نہیں لگے گا اور فوج جمہوریت کی محافظ ہے۔ ایسی باتیں اسی وقت کہی جاتی ہیں جب کوئی خطرہ ہو ورنہ یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور پھر جس جمہوریت کو اپنی حفاظت کے لیے فوج کی ضرورت ہو وہ کیسی جمہوریت ہے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے تباہی مچا رکھی ہے۔ نواز شریف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔ اس کا فیصلہ تو مستقبل ہی کرے گا لیکن پرویز مشرف اپنے دماغ سے یہ خیال نکال دیں کہ ان کا اپنا کوئی سیاسی مستقبل ہے۔ ایک افواہ یہ چل رہی تھی کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں میں انضمام کے بعد پرویز مشرف اس کی قیادت کریں گے۔ لیکن وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر آشیانہ بنتا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم بدترین نام ہے۔ مہاجروں کو خود کو پاکستانی کہلوانا چاہیے۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ مہاجروں کو یہ تشخص کس نے دیا۔ اس بات کا فائدہ الطاف حسین نے اٹھایا اور مہاجروقومی موومنٹ بناڈالی۔ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم بد ترین نام ہے۔ میں اپنی سطح سے اتر کر اس کی قیادت قبول نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کو تو آپ کبھی عوامی طاقت قراردیتے تھے اور اس کی غارت گری میں معاون تھے۔ آج کہتے ہیں کہ یہ بد ترین نام ہے، پاگل نہیں جو لسانی پارٹی کا سربراہ بنوں۔ بہر حال پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مستقبل میں رنگ بھرنے کے لیے یہ جو 23جماعتی اتحاد بنایا ہے یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں۔ وہ پہلے پاکستان تو جائیں۔ ویسے انہیں یہ تو معلوم ہوگا کہ ایم کیو ایم کے سر پراب بھی اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ شاید اسی لیے انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کو بھی شمولیت کی دعوت دی ہے جو ان کے خیال میں بدترین نام ہیں۔دوسرا ہماری اسٹبلشمنٹ کا کردار ہے جو کسی سے دھکا چھپا نہیں ہے اور اب تو ویسے بھی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹی ہے کہ ان تمام معاملات کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ تھاویسے یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کو شاید کوئی زی شعور انسان جھٹلا نہیں سکے گا کہ ہماری 70سالہ تاریخ میں ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ کھیل کھیلا ہے کبھی کشمیر کے نام پر ،کبھی افغانستان اور کبھی ضرب عضب اور پھر اب ختم نبوت ﷺ کے معاملے کو استعمال کر کے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button