Tayyab Mumtaz

کانجو کے بعد شاہ رخ جتوئیکیا قانون صرف غریبوں کیلئے ہے ؟

یکم اپریل2015کو لاہورمیں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس میں ایک19سالہ نوجوان یتیم بچے زین کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔صدیق کانجو سابق صوبائی منسٹر کے بیٹے مصطفی کانجونے دن دیہاڑے کیولری گراﺅنڈ لاہور میں زین کو قتل کیا تھااس کی ماں کے الفاظ جو اس بے چاری نے عدالت عالیہ میں چیف جسٹس کے سامنے دہرائے تھے کہ دو بیٹیوں کے ساتھ طاقتور افراد کے خلاف کیس نہیں لڑ سکتی،اوراس کے ساتھ ساتھ 12گواہان پر اتنا پریشر تھا کہ انہوں نے عدالت میں اپنا بیان بدل لیا تھا۔جس میں زین کا ماموں بھی شامل تھا۔اسی طرح ریمنڈ ڈیوس نے بھی دو پاکستانیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
حال ہی میں ایک اور کیس جس کا فیصلہ سامنے آیا اور با اثر وڈیرے کا بیٹا ایک بار پھر فتح کا نشان بناتے ہوئے عدالتوں کا منہ چڑاتے ہوئے رہا ہو کر باپ سے جا ملا ،جی ہاں شاہزیب جس نے شاہ رخ جتوئی کو بہن کا راستہ روکنے سے روکا تھا کو وڈیرے کے بیٹے شاہ رخ نے دن دیہاڑے قتل کر دیا تھا کو رہا کر دیا گیا ہے ، شاہ رخ جتوئی اور صدیق کانجو جیسے رونما ہونے والے واقعات جو معاشرتی طور پر ڈپریشن اور بددلی کا سبب بن رہے ہےں۔ شاہ رخ سے ریمنڈ ڈیوس تک کے تمام واقعات پیسے اور طاقت کے گرد گھومتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر آپ کے پاس دولت اور طاقت ہے تو آپ کسی کی بھی جان لے سکتے ہیں اور اس کو مذہب اور قانون کی سہولت کیلئے ”دیت“ کے قانون کے مطابق حل کیا جاتا ہے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ”دیت“ کیلئے لواحقین پر کسی قسم کا دباﺅ تو نہیں ڈالا گیا۔ کیا یہ دیت مقتول کے ورثاءمرضی کے اور خوش دلی سے قبول کررہے ہیں۔ ہراساں تو نہیں کیا جا رہا۔ حکومت وقت کو بھی سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ ایسے واقعات آئے روز بڑھتے کیوں جارہے ہیں اور کیا ایک فلاحی ریاست کا رول مصلحت کی نذر تو نہیں ہورہا۔کیا قانون کی حاکمیت صرف غریبوں پر ہے اور کیا پاکستان میں ایک سے زیادہ طرح کے قانون اور ہر طبقے کیلئے الگ الگ قوانین نہیں؟کیا عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہوکر سہما جارہا ہے اور ذہنی اذیت میں مزید اضافہ ہورہا ہے؟کیا ریاست کا قبلہ درست کرنا پڑے گا؟حکمرانوں کو اپنی حکومت اور اقدار کے علاوہ مصنوعی ترقی کا میک اپ کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں عوام کو کچھ مہیا کرنے پڑے گا۔ جس کا دورانیہ صرف پانچ سالہ دور حکومت کی بجائے آنے والی نسلوں کے مستقبل کا خیال رکھنا ہے۔ تعلیم کے معیارات اور جدید اداروں کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے ساتھ ساتھ نئی نسل میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، غیر ذمہ داری، بدتہذیبی اور تشدد آمیز رویے کہیں ہمارے نظام میں کوئی سقم تو نہیں رہ گیا، تو اس کا جواب بہت آسان اور سادہ ہے کہ تمام سہولیات اور ماڈرن فیشن ایبل زندگی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نظام تعلیم کا ازسرنو اور بغور جائزہ لینا پڑے گا۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے اور یہی ناانصافی تمام مسائل کی وجہ لیکن ہماری نوجوان نسل میں بگڑتے ہوئے رویئے ہمیں سوچنے پر مجبور نہیں کرتے کہ بیس سال پہلے جو لفظ تعلیم و تربیت کا رائج تھا اس میں صرف آج ہم تعلیم تک مخصوص ہوکر رہ گئے ہیں اور تربیت کا عدد غائب ہوگیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ کیا مذہب سے دوری بھی ہماری بڑھتی ہوئی بداخلاقی کی وجہ تو نہیں کیونکہ تمام مذاہب اخلاقیات پر ہی اٹھائے جاتے ہیں۔ بے جا طاقت ریاست کی رٹ کیلئے خطرہ تو نہیں۔ اس میں توازن ضروری ہے۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی دولت کے بارے میں اب پوچھا جائے گا کہ عام امیرزادوں کے قتل کرکے بچ جانا، نئی نسل کو ذہنی طور پر مضبوط اور ذہین بنا سکے گا؟ آنے والے وقت کو بہتر بنانے کیلئے ابھی سوچنا پڑے گا۔ ریاست کے طور پر بھی اور فرد کے انفرادی سطح پر بھی خدانخواستہ ہمیں شدید نقصان بھی ہوسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button