Tayyab Mumtaz

مضر صحت پانی اور ہمارے اشرافیہ

اسلام آباد میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں پانی کے لیے گئے 80 فیصد نمونے مضر صحت پائے گئے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پارلیمنٹ ہاو¿س اور لاجز کے 6 فلٹریشن پلانٹس میں سے 3 کا پانی درست نہیں۔ کوئٹہ میں پانی کی شدید قلت ہونے والی ہے۔ اس لیے وہاں زراعت ختم کی جا رہی ہے۔ کمیٹی کو بتایا کہ شہروں کی نسبت دیہات ہمیں مضر صحت پانی کا استعمال زیادہ ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے بعض اضلاع میں 100 فیصد مضر صحت پانی پیا جا رہا ہے۔ شفاف پینے کے پانی کی فراہمی، ملاوٹ سے پاک اشیاءخورو نوش اور ٹی وائٹنر کے استعمال سے متعلق اقدامات اور دودھ کی فراہمی کے لیے چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریوں کو کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا ہے۔ کمیٹی نے پی ایس کیو سی اے اور پی سی آر ڈبلیو آر کو کارکردگی مو¿ثر بنانے کے لیے اقدامات کی ہدایت بھی کی ہے۔ کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ ملک میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان ساٹر ریسورسز کا بجٹ بڑھا یا جائے۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا الگ سے وزیر بھی لگایا جائے۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر میاں عتیق شیخ کا کہنا تھا کہ ٹی وائٹنر جانوروں کے لیے بھی مضر صحت ہیں جو انسانوں کو پلائے جا رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ ٹی وائٹنر بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کیے جائیں ناقص اشیاءسے گردے جگر اور معدے کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولٹری کی خوراک میں مضر صحت اشیاءشامل ہیں جو دیگر ممالک میں بین ہیں۔ تحقیق کے ادارے کارکردگی بہتر کریں اور ایسے اقدامات اٹھائیں جن کی بدولت عوام کو شفاف پینے کا پانی ملے اور مضر صحت اشیاءکی فراہمی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے۔ چیئرمین پی سی آر ڈبلیو آر محمد اشرف نے بتایا کہ پولٹری کی خوراک میں بائیوٹک کثیر تعداد میں استعمال ہوتی ہے تا کہ پولٹری جلد سے جلد تیار ہو سکے۔ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ دو برسوں میں 212 مضر صحت اشیاءتیار کرنے والے یونٹس بند کیے گئے ہیں۔ ملاوٹ کرنے والوں کی سزاو¿ں اور جرمانوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ زیارت کا سو فیصد پانی مضر صحت ہے۔ تین صوبوں میں پانی کے حوالے سے پالیسی تیار کر لی گئی ہے۔ سندھ نے ابھی تک پالیسی ترتیب نہیں دی۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں 84 فیصد پانی مضر صحت ہے۔ پاکستان میں اشیاءخورو نوش میں ملاوٹ کے علاوہ پینے کے پانی کا شفاف نہ ہونا ایک المیے سے کم نہیں۔ ملک کی تشکیل کے 70 برس بعد بھی پورے ملک میں شفاف پانی میسر نہیں۔ اشیاءمیں ملاوٹ آج بھی پوری بے شرمی سے جاری ہے۔ محکمہ خوراک اس ضمن میں کسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا۔ پنجاب میں 5 برس ہوئے فوڈ اتھارٹی کا محکمہ قائم کیا گیا جو اپنی کارکردگی کے لحاظ سے بہت بہتر کام کر رہا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ آج بھی لاہور میں محکمے نے بے شمار مضر صحت خوراک تیارکرنے کے یونٹس پکڑے ہیں۔ نہایت افسوس کا امر یہ ہے کہ اس میں برانڈڈ اور بڑے معروف ادارے بھی شامل ہیں۔ لاہور میں فلٹریشن پلانٹ سے مہیا کیے جانے والے پانی کی شفافیت پر بھی فوڈ اتھارٹی واسا کو وارننگ دے چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سخت قانون سازی کے ساتھ سخت اور فوری کارروائی کرے۔ ملاوٹ کرنے والے افراد کے خلاف فوری مقدمات قائم کیے جائیں۔ ان کو سزا دینے کے لیے خصوصی عدالتیں بنائی جائیں تا کہ ملزموں کو جلد سزا دی جا سکے۔ سینٹ کمیٹی نے چیف سیکرٹری صاحبان کو بلایا ہے۔ اب تمام صوبوں میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی طرز پر محکمے قائم کر کے ملک سے ملاوٹ کا خاتمہ کرنے کے پروگرام کا آغاز کیا جائے اور اس کا پلان بنا کر اس پر عمل کر کے ملک کو مضر صحت خوراک سے نجات دلائی جائے۔مگر یہاں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میاں شہباز شریف نے بہت ست واٹر فلٹر پلانٹ پنجاب کی سطح پر لگوائے ہیں جن میں اکثر کام ہی نہیں کر رہے اور میرے اپنے حلقہ یونین کونسل140میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ارباب اختیار اور خاص طور پر ایم این اے کی آشیرباد سے یہ پلانٹس کا جو ماہانہ بجٹ ہے اس کو خرد برد کر دیا جاتا ہے اور عوام کو جھانسا دینے کے لیے فلٹریشن پلانٹ میں وہی گندا پانی جو کہ روٹین میں لوگوں کے گھروں میں میسرہوتا ہے کئی کئی گھنٹے لائنوں میں لگ کر بھرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہیپاٹائٹس،دست کی بیماری،اور دیگر امراض روز بروز بڑھ رہی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button