پاکستان صحافیوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار
ملک خداداد میں صحافیوں پر تشدد اور ڈرانے دھمکانے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں سو سے زائد صحافی قتل بھی کئے جاچکے ہیں۔ صحافیوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم پریس ایمبلم کیمپین کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان جو ایک سال پہلے صحافیوں کیلئے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر تھا اب چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں پانچ صحافی قتل ہوئے جبکہ صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روکے جانے کے واقعات بھی بہت بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ دو روز پہلے ”دی نیوز“ کے تحقیقاتی رپورٹر احمد نورانی پر نامعلوم افراد کی طرف سے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ آئی سی یو میں زیر علاج حملے میں شدید زخمی ہونے والے رپورٹ کو ہفتے کی شام ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے گلدستہ بھجوایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حملے کی شدید مذمت کی اور اس واقعہ پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں احمد نورانی پر حملے کو بدامنی پھیلانے اور اداروں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھی مکمل یقین دہانی کرائی۔ پاک فوج کی طرف سے رپورٹر کو گلدستہ بھیجا جانا خوش آئند ہے۔(مگر اﷲ خیر کرے) اس حملے کے حوالے سے تاثر یہ پیدا ہورہا ہے کہ کسی نہ کسی نے نامعلوم افراد کے ذریعے یہ کام کروایا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی مذمت کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ان کو ایسی وضاحتیں پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔کہیں دال میں کچھ کالا ہے بلکہ یہاں تو دال ہی پوری کالی ہے ہمارے سیاستدان ہوں یا ان کے زیر سایہ کام کرنےو الی ایجنسیاں،پاک فوج ہو یا سپیشل برانچ سب نہتے صحافیوں پر ہاتھ صاف کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کبھی زینت شہزادی کی صورت میں تو کبھی بابر ولی جیسے ہونہار اور نوجوان کی شکل میں۔اس ساری صورتحال کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ اس سارے معاملے میں فوج کو بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس کے بعد ان عناصر کو بے نقاب کرنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے جو سچ کی آواز کو دبا کر اور آئے دن صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر فوج کے خلاف جذبات بھڑکانا چاہتے ہیں۔ حکومت کو بھی صحافیوں کے تحفظ کا بل جلد از جلد منظور کرنا چاہئے تاکہ صحافی خدشات سے بالاتر ہوکر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہماری صحافتی تنظیموں کے سربراہان بھی تو ان کے ہی چنے ہوئے اور ان کی تنخواہوں پر ہیں۔ابھی اس کشمکش سے نکل نہیں پایا تھا کہ ایک خبر پر نظر گزری۔ دل مزید پریشان ہوا چونکہ میرا تعلق شاملی لاہور سے ہے اور میں اس مصیبت سے گزرچکا ہوں خبر تھی کہ لاہور میں سموگ دھوئیں سے آنکھوں کی بیماریوں میں اضافہ اور دمہ سے کئی افراد کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں۔ سموگ کی آمد کے بعد محکمہ ماحولیات نے نئی سموگ پالیسی کے تحت ایک ہفتہ کے دوران فضا میں دھواں اور کاربن گیس بکھیرنے والی 103 فیکٹریاں سیل کر دی ہیں۔ دھواں چھوڑنے اور کاربن پیدا کرنے والی زیادہ تر فیکٹریاں داروغہ والا،ملتان روڈ، بند روڈ اور شمالی لاہور میں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں سموگ کی بڑھتی ہوئی مقدار شہر میں مختلف ترقیاتی کاموں، سڑکوں، پلوں کی تعمیر اور اورنج میٹرو ٹرین کے لیے کیے جانے والے تعمیراتی کام کے دوران چھ ہزار سے زائد درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ہے۔ اس کے ساتھ فیکٹریوں اور ٹریفک کے مضر صحت اور آلودہ دھوئیں کو کنٹرول نہیں کیا گیا۔ سموگ کی بڑھتی ہوئی مقدار کی ایک وجہ سٹیل فرنسز بھی ہیں جو زہریلا کاربن فضا میں چھوڑ رہی ہیں۔کیونکہ ان فیکٹریوں میں پرانے ٹائر جلائے جاتے ہیں۔ شہر میں آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی فضائی آلودگی کا باعث ہے جو سردی کے موسم میں سموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسی طرح میٹرو اورنج ٹرین کے لیے شہر کے بیچ کے علاقوں میں تقریباً 30 کلو میٹر پرکھدائی کی گئی جس سے تقریباً ڈیڑھ برس سے دھول اور مٹی اڑ رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ بھارت میں فصلوں کی باقیات کو جلایا جاتا ہے جس کا دھواں فضا میں جا کر سموگ کا سبب بنتا ہے۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں جو آلودگی پیدا کر رہا ہے، اسے کنٹرول کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ اس بارے میں جو پالیسی ہے، اس پر پوری طرح عمل درآمد ہی نہیں ہو رہا۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کے ترجمان نے کہا کہ سموگ پالیسی پر عمل درآمد کرنے والا آپریشن شروع کر دیا ہے اور اب تک سو سے زائد فیکٹریاں بند کر چکے ہیں۔ ادھر پنجاب حکومت نے سموگ پر کنٹرول کے لیے صوبے میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جس کے تحت کوڑا کرکٹ، بھوسہ اور پولی تھین بیگ جلانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ صوبائی حکومت نے محکمہ ماحولیات، سالڈ ویسٹ کمپنیوں، ضلعی انتظامیہ، محکمہ انڈسٹریز سمیت تمام متعلقہ محکمہ جات کو احکامات جاری کیے ہیں کہ کوڑا، بھوسہ وغیرہ سمیت دیگر کئی اشیاءکو جلانے پر پابندی لگا دی گئی ہے کوئی اس کی خلاف ورزی نہ کرنے پائے۔ متعلقہ محکموں سے کہا گیا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ حکومت نے سموگ کے آغاز پرمحکموں کو جو ہدایات جاری کی ہیں، ان پر سارا سال اور ہر وقت عمل ہونا چاہےے کیونکہ سموگ کی وجہ سے شہریوں کو جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ خصوصاً سانس، دمہ اور دل کے امراض میں مبتلا افرادکو بہت احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ ان امراض میں مبتلا افراد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھروں سے انتہائی ضرورت کے تحت نکلیں اور ماسک پہن کر باہر آئیں۔ حکومت کے متعلقہ ادارے اگر اپنی ذمہ داری بروقت ادا کریں تو شہریوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا نہ ہوں۔ جن علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے زمین کی کھدائی ہوئی ہے وہاں مٹی کو اڑنے سے روکنے کے لیے پانی کا مسلسل چھڑکاو¿ کیا جائے۔ 6 ہزار درخت کاٹے گئے ہیں تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ان کے متبادل درخت کیوں نہیں لگائے گئے۔ اسی طرح شہریوں کو سموگ کے بارے میں مکمل آگاہی دی جائے کہ اس کے اثرات سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے اس ضمن میں اپنا کردار مناسب طریقے سے ادا کریں تو سموگ سے ہونے والے نقصانات کو انتہائی کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو محکمہ ماحولیات سے سموگ کے بارے میں پالیسی، گائیڈ لائن اور اس پر عمل درآمد کے حوالے رپورٹ تیار کرانی چاہےے اور اس عمل درآمد کے لیے طریق کار بھی طے کر کے اس پر پورے سال ہر وقت عمل کرایا جائے تا کہ سموگ کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ان فیکٹریوں کو مستقل بنیادوں پر سیل کیا جانا چاہئے جو ٹائر اور پلاسٹک اور ایسی اشیاءکو جلا کر ایندھن حاصل کرتی ہیں اور لوگوں کو موت بانٹتی ہیں مگر ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ یہ فیکٹریاں ان ہی حکومتی اراکین کی آشیرباد سے چلائی جاتی ہیں اور یہ ان سے نذرانے وصول کرتے ہیں اور اسی پیسے کو استعمال کرتے ہیں اور الیکشن میں دھاندلیوں کے ذریعے برسر قتدار آتے ہیں۔