Tayyab Mumtaz

عالمی سیاست کا اگلے انتخابات پر کیا اثر ہوگا؟

مریم کا پروٹوکول دیکھ کر عمران خان کو اپنی وزارت عظمی کی سیٹ ہاتھ سے جاتی نظر آئی۔جناب میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور آج بھی کہہ رہا ہوں مریم نواز NA-48سے الیکشن لڑیں گی اور اگلی وزیر اعظم ہونگی۔یہ وہ حقیقت ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی بتا رہا ہوں۔میرے ذرائع یہ کہتے ہیں کہ ایک مخصوص ٹیم کو ٹاسک سونپ دیا گیا ہے جس نے مریم کو وزارت اعظمی کے لیے سامنے لے کر آنا ہے اور جتانا بھی ہے۔عمران خان اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ موقع گواہ بیٹھے ہیں۔اگلی حکومت سی پیک کے مرحون منت ہوگی۔۔چین اپنی اربوں کی سرمایہ کاری کسی بھی صورت داو پر نہیں لگائیں گے۔وسطی ایشائی صورت حال اس کی اجازت نہیں دے رہی۔
ایک نظر اگر موجودہ سیاسی صورتحال پر ڈالیں تو پائیں گے کہ پی ٹی آئی پاناما کیس کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر منا رہی ہے اور اسے ایک تاریخی کیس سمجھتی ہے۔ میں بھی اس کیس کو تاریخی سمجھتا ہوں لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی تاریخ اس سے بھی بڑے بڑے تاریخی کیسوں سے بھری ہوئی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات میں کون اس کیس سے فائدہ اٹھاتا ہے، کیا پاکستان تحریک انصاف اس کیس کو بنیاد بنا کر انتخابات میں فتح یاب ہو سکتی ہے؟ کیا پاکستان مسلم لیگ ن اس کیس کو اپنے لیے سیاسی اِسٹنٹ کے طور پر استعمال کرے گی؟
موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر میرا ذاتی خیال ہے کہ آنے والے انتخابات پاکستان کے اب تک ہونے والے انتخابات سے کافی حد تک انفرادی سطح کے ہوں گے۔ اس بار کے عام انتخابات پر پوری وسطی ایشیائی طاقتوں کی نظر ہے کیونکہ سی پیک کے منصوبے کے بعد پاکستان جس تیزی کے ساتھ وسطی ایشیائی طاقتوں کی نظر میں اپنی اہمیت بنا بیٹھا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
چین اس وقت اپنی تمام تر توانائی اقتصادی راہداری کی کامیابی پر لگا رہا ہے، کیوں کہ یہ منصوبہ چین کے لیے صدیوں کی ترقی کا ضامن ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں پاکستان کا بھی فائدہ ہے لہٰذا یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان پورے پانچ سال میں کس پارٹی نے وسطی ایشیائی طاقتوں کے دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔
اس وقت وسطی ایشیائی تِھنک ٹینکس بھی یہی چاہیں گے کہ پاکستان میں ایسی حکومت ہو جو سی پیک کے تحت شروع ہونے والے تمام منصوبوں کو بلاتعطل جاری رکھے کیوں کہ حکومتوں کے تبدیل ہونے سے خارجہ و معاشی پالیسی میں واضح تبدیلی آتی ہے، اور کوئی بھی تبدیلی ان تمام منصوبوں کے بارے میں غیر یقینی پیدا کر سکتی ہے۔
بالخصوص چین اس بات کا متحمل نہیں کہ وہ نئے لوگوں کے ساتھ ذہن سازی کرے چنانچہ اگلی حکومت کے لیے عوامی ردِ عمل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات اور اقتصادی راہداری سمیت کئی امور اہم ہیں۔
چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ ان تمام باتوں کو اپنے ووٹ بینک سے کس حد تک کیش کروا سکتی ہے۔ ملکی ترقی سے متعلق یہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لینا حکومت کے لیے اگلا الیکشن جیتنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
اس سے پہلے ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے عمران خان کے 2014 کے دھرنے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ کے دورے میں تاخیر کو کس طرح پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف عوامی رائے ابھارنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے عمران خان کی وجہ سے سی پیک منصوبوں کا افتتاح تاخیر کا شکار ہوا۔
اس کے بعد وقتاً فوقتاً مسلم لیگ ن کی حکومت عمران خان کے ہر دھرنے کو سی پیک کے خلاف سازش قرار دیتی رہی ہے۔ اگر حکومت اپنے عوام کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اس کے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہوگا۔
عمران خان کو اپنی عالمی سطح کی حکمت عملی واضح کرنی ہوگی۔ عسکری حلقوں میں بھی اگلا پنج سالہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جبکہ عالمی سیاست پر بھی عمران خان کا مو¿قف ابھی پوری طرح سے واضح نہیں۔
اس وقت تک جو منشور دونوں جماعتوں کی جانب سے آیا ہے اس میں پاکستان تحریک انصاف واضح طور پر قومی دھارے کے سیاسی پہلوو¿ں پر عوام کی ذہن سازی کرنے میں ناکام رہی ہے، بجز اس کے جذبات کو ابھارنے کے۔
اگر ہمیں عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنی ہے تو ہمیں دنیا کے ساتھ مل کر اور ان کے درمیان رہ کر دنیا سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا کے تمام ممالک اپنے اپنے منشور کے ساتھ عالمی منظرنامے کا حصہ بنے ہوئے ہیں، پاکستان کو بھی ایسا ہی طرز عمل اپنانا ہوگا۔
موجودہ سیاسی حالات کے پیشِ نظر ن لیگ کے لیے یہ پاناما کیس ایک الیکشن سیل ثابت ہوگا اور وہ اگلے انتخابات کافی بہتر انداز سے جیت سکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے جو توقعات وابستہ ہو چکی ہیں ان کو پورا کرنے لیے اسے اگلے کئی سال تک مزید محنت کرنی ہوگی۔
عمران خان کے نظریے سے کوئی اختلاف نہیں اور میاں برادران کی کرپشن بھی کسی سے چپھی نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی اسٹریٹجک صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ اس کے فیصلے پورے خطے کو متاثر کر سکتے ہیں۔
اگر ہم آگے بڑھنے کے بجائے داخلی ا±تار چڑھاو¿ کا شکار ہوں گے تو پورا خطہ ہمیں اس کی اجازت نہیں دے گا۔ ہم سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جذبات اس وقت ضرورت نہیں بلکہ حکمت عملی سارے مسائل کا حل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button