اوئے چھوٹے !چالڈ لیبر ڈے اور گونواز گو!

ابے چھوٹے ….ائے چھوٹے ….اے چھوٹے!جی سر….آیا صاحب….جی صاحب….جی میڈم….!ان آوازوں کی گونج میں ہر سال مزدور بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ….جس کے لیے ایک پرانا سروے …. اس موصوع پر لکھا ہوا ایک پرانا مصمون ۔ ایک پرانی پھٹیچر تقریر ( جس میں مزدور بچوں سے ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے روایتی اور موٹے الفاظ ہو ں) اور ایک پرانے وعدے کا سامان کافی ہے ۔ جسے نئے ریپر میں لپیٹ کر تازہ سرخیوں اور تبصروں سے سنوار سجا کر پیش کردیا جاتا ہے ۔ میرا ملک جس میں غربت ، محرومیاں ، مذہبی تضادات ، سماجی جبر، ناقص سیاسی نظام اور مختلف درجات میں بٹا ہوا معاشرہ ، ان مزدرو بچوں کو دھڑا دھڑ دہشت گرد اور خودکش بمبار بنانے میں مددگار معاون ثابت ہورہا ہے ۔ اس ملک میں ہر سال جب چائلڈ لیبر ڈے منایا جاتا ہے اور اس ضمن میں مہذب اقوام کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا عہد کیا جاتا ہے تو کیڑے مکوڑوں کی طرح گلیوں ، بازاروں ، سڑکوں ، کھوکھوں ، دکانوں اور ہوٹلوں میں رینگتے ”یہ چھوٹے “ اپنی جملہ محرومیوں اور ذلتوں کے ساتھ ہر جانب دکھائی دینے لگتے ہیں ، جن کا بچپن مختلف نوع کے ”مالکان“ کی جھڑکیاں سنتے ، ان کی مار کھاتے ، ان کا تشدد برداشت کرتے گزر جاتا ہے ۔
یورپ میں جب صنعتی انقلاب نہیںآیا تھا ، تو وہاں غلامو ںکی منڈیاں لگتی تھیں، جہاں یہ ”چھوٹے “ بھیڑ بکریوں کی طرح بیچے جاتے تھے اور ان سے کان کنی، زراعت، گھریلو کام کاج کے علاوح جبری بیگار لی جاتی تھی ۔ مگر صنعتی انقلاب کے بعد جب آہستہ آہستہ یورپ جنگوں اور بدامنیوں سے نکلنے لگا تو وہاں قوانین وضع ہونے لگے ۔ جمہوریت کے خال وخال ابھرنے لگے ….جس کے بعد انسانی حقوق کاچارٹر وجود میںآیا ، فنڈامنٹل رائٹس ، فرد کے حقوق، جمہوری ریاستوں کی ذمہ داریاں، آئین، آئین کی پاسداری ، جمہوری اقدار، جس میں فرد اور معاشرہ مکمل اہمیت رکھتے تھے ۔
ہمارے وہاں وہ زمانہ غلامی کا تھا ۔ جبر کا تھا اور اس جبر کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کا تھا ۔ چنانچہ ہم اس معاملے میں مہذب اقوام سے پیچھے رہ گئے ۔ آزادی کے بعد گرچہ ہمارے ہاں بھی نئے قوانین وضع ہوئے ۔ دساتیر وجود میں آئے ، جمہوریت کے خال وخد تراشے گئے ، پا رلیمان اور قانون ساز ادارے اس جمہوریت کے پاسدار بن کر اس کی ”حفاظت“ بھی فرماتے رہے یہ الگ بات مارشل لاﺅں کا شب خون جاری رہا ) مگر فرد، اس کا مقدرنہ بدلا ، جمہوریت کی پہچان وہی بالائی طبقات رہے ، جن کے چہرے مہرے جمہوری اقدار کی نفی کرتے ہیں ۔ اور جن کے کردار ان کے قول وفعل کی چغلی کھاتے ہیں ۔ یہی بالائی طبقات اور جمہوریت کے پاسداران ہر سال ننھے مزدوروں کا دن مناتے ہیں ان کی تقدیریں آئندہ سال بدل جانے کا وعدہ فرماتے ہیں ۔ ان کا بچپن لوٹانے کی قسمیں کھاتے ہیں اور ہاتھ ہلاتے اس دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں ، جہاں ان محروم، بدقسمت بچوں کے خیال کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
2008ءکے ایک سروے کے مطابق اس ملک کے17.2فیصد بچے ، زراعت، کان کنی، فشنگ انڈسٹری ، ٹیکسٹائل ملوں، فیکٹریوں ، دکانوں ، ہوٹلوں ، کھوکھوں ، بھٹوں سے منسلک ہیں ۔ 264000بچے گھریلو ملازمتوں سے منسلک ہیں ۔ لاکھوں بچے چوڑیاں بنانے والی انڈسٹری میں اپنا بچپن جھونک رہے ہیں ۔ چار سے پانچ سال کا ایک بچہ پانچ سیٹ چوڑیاں ( ایک سیٹ میں65چوڑیاں) چار سے پانچ دن میں بناتا ہے ، جس کی مزدوری چالیس روپیہ ہے ۔ اڑھائی کروڑ( ایک پرانا سروے ) سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں ۔ گھروں سے بھاگے ہوئے لا تعداد بچے، منشیات کے عادی ہوچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ گدا گری کی لعنت ہے ، جس سے وابستہ بچوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔ سڑکوں، چوراہوں اور سگنلز پر گاڑیوں کی کھڑکیوں سے چپکے ، پھول، ربڑ بینڈ اور غبارے لیتے ، انہیں خریدنے کی التجا کرتے یہ بچے ، بھیک کے لیے ہاتھ پھیلاتے ، یہ بچے ، ہم روز مرہ زندگی میں روزانہ دیکھنے کے عادی ہیں ۔ انہیں جھڑکنے کے عادی ہیں ۔ انہیں دیکھ کر نفرت سے منہ پھیرنے کے عادی ہیں ، یہ گدا گر ، مزدور، میلے کچیلے، بدحال بچے ، جنکا بچپن چھین کر ، ان کے ہاتھوں میں جگنوﺅں اور تتلیوں کے بجائے ، کتابوں اور بستوں کے بجائے ایک وائپر ، ایک مسلی کچلی گلاب کی کلی، چند غبارے ( بیچنے کے لیے ) یا کشکول تھما کر انہیں زندگی کی راہ پر دھکا دے کر اتار دیا جاتا ہے ۔ کون ہیں ؟ ان کی جنگلی جڑی بوٹیوں کی طرح پھیلتی، بڑھتی زندگیوں کی تراش خراش اور حفاظت کس کے ذمے ہے ؟ وہ والدین جو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوںنے اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرلیا ۔ ان معصوموں کو چھوٹی چھوٹی مزدوریوں پر کھڑا کرکے اپنی ماہانہ آمدنی کو بڑھا لیا ؟ یا پھر ریاست جو ایک باپ کی طرح ہوتی ہے اور فرد کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے وعدے پر جمہوریت، جمہوریت کھیلتی ہے ۔ اپنے شہری کو تعلیم ، صحت اور روزگار فراہم کرنا جس کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔
گندی بستیوں میں مچھروں ، مکھیوں کی طرح پروان چڑھنے والے یہ چھوٹے گندا پانی، گندی خوراک، گالیوں، طعنوں اور کوسنوں کی پیداوار ، آگے چل کر اس ملک اور معاشرے کو کیا دیں گے ؟ ننھی طیبہ پر ہونے والاگھریلو تشدد، جس نے اس ملک کی ساری اوئی ہائے قسم کی این جی اوز کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور میڈیا اس ”دلچسپ سٹوری “ کے پیچھے ”توبہ توبہ “ کرتا بھاگ اٹھا تھا ، کیا اس ملک کی واحد بچی تھی ، جس پر گھریلو تشدد ہوا ؟ وہ چھوٹے جو روزانہ بدفطرت اور بد خصلت ”مالکوں“ اور استادوں کے جنسی جبر کا شکار ہوتے ہیں ۔ اپنے سے بڑے لڑکے ، جن سے فعل بد کے ذریعے ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں ان کی جانب کب توجہ کی جائے گی ؟ آئے روز چھوٹے بچوں سے بدکاری کی ویڈیوز اورسکینڈل سامنے آتے ہیں ، قصور کے بچے اس کی ایک بدترین مثال ہیں ۔ ان مجرمان کو کس عدالت ، کون سی کچہری سے سزا ہوئی ؟ کیا وہ عبرتناک سزاﺅ ںکے مستحق نہیں تھے ؟ کون پرسان حال ہے ان معصوم بچوں کا ؟ ان کی دبی دبی گھٹی گھٹی چیخیں ، ان کی خوف زدہ سسکیاں،اندھیرے ، خوف ، جبر اور جبری مشقت میں کھوچکے ان کے خواب، کون لوٹائے گا انہیں ، حسن، حسین اور مریم نواز کے کاروبار، اثاثے ، فلیٹ اور ملیں بچانے والا اس ملک کا حکمران؟ اپنے بیٹے کی ، جے آئی ٹی میں پیشی کی تصویر لیک ہوجانے پر ، اس کی خود ساختہ بے بسی کو دنیا کا سب سے عظیم المیہ ، سب سے بڑی ٹریجڈی مان کر اس پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والا نواز شریف، اگر ایک آنسو بھی ان چھوٹے اور چھوٹیوں کی گم شدہ تقدیر پر بہالیتا تو شاید آج یہ اتنے حقیر، پسماندہ اور بے شناخت نہ ہوتے ؟ اور گو نواز گو کے نعروں میں اتنی چبھن ، اتنی کاٹ نہ ہوتی !!