مسلکی انتہا پسندی، اسلام ، پاکستان اور عوام کی دشمن
قومی یکجہتی کے استحکام کے لیے فرقہ وارانہ ہم آہنگی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ شنید ہے کہ ارباب حکومت نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی سرکوبی کا آہنی عزم کررکھا ہے ۔ یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والی قوتیں اور عناصر اسلام ، پاکستان اور عوام تینوں کے دشمن ہیں۔ یہ عناصر اسلام مخالف قوتوں کے آلہ کار کی حیثیت سے مسلم امہ کو فرقوں، مسلکو ںاوراکائیوں میں نہ صرف منقسم کرتے ہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کی تکفیرکی بھی ترغیب دیتے ہیں ۔ جہاں تک فرقہ وارانہ دہشت گردی کا تعلق ہے تو یہ بات بالا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ طالع آزما نام نہاد مذہبی رہنماﺅں نے مسلکی تعصبات کو افرادی وگروہی دکانداریاں چمکانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔ اگر دیانتداری سے عالم اسلام کے انحطاط وتنزل کے اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو آخری تجزئے کے مطابق یہ حقیقت روز روشن کی طرح ابھر کر سامنے آئے گی کہ عالم اسلام کو اس کے خارجہ اور بیرونی دشمنوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا، جتنا اس کے داخلی اور اندرونی دشمن پہنچاتے رہے ۔ خارجی اور بیرونی دشمن تو اعلانیہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہیں ، لیکن یہ داخلی اور اندرونی دشمن زیر زمیں اور پس پردہ کارروائیوں سے اسلامی معاشروں اور مملکتو ںکی وحدت کے آبگینے کو پاش پاش کرنے میں مصروف ہیں ۔ وہ پریشر گروپس اور مسلکی انتہا پسندی کی علمبردار جماعتیں جو فرقہ واریت کے زہر کو اس ملک کی شریانوں میں دوڑانا چاہتی ہیں ، انہیں اپنے نظریات وعزائم پر نظر ثانی کرنا چاہیے ۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا تاریخ کے اس نازک اور حساس موڑ پر وطن عزیز ان متعصبانہ اور تنگ نظرانہ رجحانات وتصورات کے فروغ کا متحمل ہوسکتا ہے ؟
روح اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ علمائے کرام اور ذاکرین عظام بلا امتیاز مسلک ومذاہب آگے بڑھیں اور اپنا حقیقی فریضہ ادا کرتے ہوئے قوم کو وحدت کا پیغام دیں ۔
یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ گزشتہ 4عشروں میں فرقہ واریت کی مسموم فضانے ماحول میں منافرت کے تکدر کو دبیز تر کرنے کی سعی مذموم کی ۔ اس کے باوجو دتشدد آمیز تعصب کی یہ لہر عام آدمی کو اپنی گرفت میں لینے میں ناکام رہی۔ بعض فرقہ پرست عناصر کو غیر مقامی قوتوں اور عناصر کی وساطت سے بھاری پیسہ اور اسلحہ مہیا کیا جارہا ہے ۔ گلگت ، چترال ،اور سکردو کے بعض محتاط عوامی حلقے پرنٹ میڈیا کے ذریعے متعدد بار اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ فرقہ پرست انتہا پسندوں کو بعض ایسی مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کی در پردہ تائید وحمایت بھی حاصل ہے جو بظاہر تعلیم، صحت اور بہبود آبادی کے شعبوں میں کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں ۔ 2005ءمیں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں کا موقف تھا کہ شمالی علاقہ جات میں اگر لوگوں کو فوری طور پر غیر مسلح نہ کیا گیا تو گلگت جہنم زار بن جائے گا ۔
یہ ایک لمحہ فکرہے کہ اس دین کامل کے پیرو کار وجود دنیائے انسانیت کومحبت اور اخوت کا پیغام دینے میں پیش پیش رہے ، آپس ہی میں نہ صرف یہ کہ دست وگریباں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے ہلاکت کے پیغامبر بن چکے ہیں ۔یہ عناصر بھلے ان کا تعلق کسی بھی فرقہ اور مسلک سے ہو ، عالم اسلام کی آستین کے سانپ ہیں ۔ آستین کے ان سانپوں کو کچلنا عالم اسلام کے تمام شہریوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے ۔ اندریں حالات ان کی ہولناک کارستانیاں لارنس آف عربییہ کی ریشہ دوانیوں سے مماثلت رکھتی ہیں ۔ وہ پریشر گروپس اور مسلکی انتہا پسندی کی علمبردار جماعتیں جو فرقہ واریت کے زہر کو اس ملک کی شریانوں میں دوڑانا چاہتی ہیں ، انہیں اپنے نظریات وعزائم پر نظر ثانی کرنا چاہیے ۔
اسلام آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا ، وہ آفاقیت کا پرچم بردار ہے ۔ روح اسلام کا تقاصا یہی ہے کہ علمائے کرام اور ذاکرین عظام بلا امتیاز مسالک ومذاہب آگے بڑھیں اور اپنا حقیقی فریضہ اداکرتے ہوئے قوم کو وحدت کا پیغام دیں ۔ رمضان المبارک کی بابرکت مقدس اور محترم ساعتوں کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے منصب کی اہمیت اور نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی فضا کو سازگار بنانے کے لیے سرگرم عمل ہوں ۔