Tayyab Mumtaz

70فیصد زیر زمین پانی آلودہ

لیہ سے شائع ہونے والے اخبار منزل تھل نے اپنی رپورٹ میںلکھا ہے کہ حکومت پنجاب نے ہیپا ٹائٹس کنٹرو پروگرام کے تحت اس مہلک بیماری سے بچاﺅ کے لیے جہاں ہیپا ٹائٹس سے آگاہی کے سلسلہ میں مراکز مسیحائی پر بروشرز کی تقسیم سور ضلع ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں میں ہیپا ٹائٹس کلینک کے نام سے اس بیماری سے تحفظ کا اعادہ کیا ہے وہاں زندگی کی بنیادی اور اہم ضرورت صاف اور صحت مند پانی کی ترسیل کے مسئلہ کو بالائے طاق رکھ دیاگیا ہے جہاں شیو کے لیے نئے بلیڈ ، ٹیکہ لگوانے کے لیے نئی سرنج کے استعمال، انتقال خون کے لیے مستند بلڈ بنک کی ضرورت پر زور دیاگیا ہے وہاں روز بروز زیر زمین استعمال ہونے والے پینے کے پانی کی آلودگی کے خاتمہ کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے پنجاب بھر میں یوں تو ہر 9واں فرد ہیپا ٹائٹس بی اور سی سی متاثر ہے لیکن جنوبی پنجاب جس کی آبادی سات کروڑ سے تجاوز کررہی ہے میں ہر 7واں فرد اس مہلک بیماری سے متاثر نظر آتا ہے اس طرح جنوبی پنجاب کے تقریباً ایک کروڑ افراد ہیپا ٹائٹس بی اور سی سے متاثر ہیں 70فیصد پینے کا پا نی آلودہ ہوچکا ہے اور عالمی ادارہ صحت کے شعبہ ڈیمولوجی نے پنجاب کے مختلف شہروں سے پانی کے3063نمونے حاصل کرکے جب ان کے لیبارٹری ٹیسٹ کیے تو917نمونے مہلک جراثیم آلودہ نکلے جن میں کولیفارم ، ای کولی اور شیکیلا کی مقدار نمایاں تھیں جس میں جنوبی پنجاب کے خطے کے شہر سب سے زیادہ متاثر تھے ۔ ہیپا ٹائٹس بی اور سی کا پھیلاﺅ چونکہ شہری علاقوں میں زیادہ ہے اس لیے اس کا پس منظر ناقص اور ناکارہ سیوریج سسٹم ہے جمہوری نظام نے ایک طویل عرصہ تک اپنی آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کو کام کرنے نہیں دیا اس بنا پر ضلع کونسل، تحصیل کونسلیں، مونسپل کمیٹیاں جو ضلعی انتظامیہ کی دسترس میں تھی شہریوں کوپینے کے صاف پانی کی ترسیل کو ممکن بنانے میں ناکام رہیں شہروں میں سیوریج کی لائنیں جو بوسیدہ ہوچکی ہیں اکثر جگہوں سے کریک ہونے کی بنا پر یہ پانی زیر زمین انسانوں کے استعمال میں لائے جانے والے پانی میں شامل ہو رہا ہے اس طرح پینے کے پانی کے مقرر کردہ معیار کے برعکس پینے کے پانی میں کولیفا رمزی اور ای کولی کی بہت بڑی مقدار پائی جاتی ہے آپ کسی گٹر کا ڈھکن اٹھا کر دیکھ لیں وہاں ہڈیاں، کوڑا کرکٹ ، گھر کا سامان، مری ہوئی مرغیاں اور پلاسٹک کے لفافے نظر آتے ہیں جبکہ اکثر گٹروں کے ڈھکن ہی غائب ہوتے ہیں گزشتہ روز ضلع لیہ میں ہیپا ٹائٹس آگاہی مہم کے تحت4437افراد کو رجسٹرڈ کیاگیا ۔ جن میں677افراد میں ہیپا ٹائٹس سی اور 338افراد میں ہیپا ٹائٹس بی کی تشخیص ہوئی بی اور سی سے متاثرہ افراد17تھے 3815افراد کو بچاﺅ کی ویکسین لگائی گئی ۔
بہاولپور سے شائع ہونے والے اخبار نوائے بہاول پور نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ جنوبی پنجاب اس وقت ملک کے سب سے زیادہ پاس پیدا کرنے والا خطہ ہے جس کی پیداوار ملکی پیداوار کا75فیصد ہے ۔ دنیا کی بہترین کوالٹی اور لمبے ریشے کی اعلیٰ معیار کی کپاس کی پیداوار کے باوجود حکومتی عدم توجہی نے خطے کے باسیوں کو محرومی وپسماندگی کے اندھیروں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ ٹیکسٹائل سٹی، کاٹن جیننگ، ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ، ٹیکسٹائل یونیورسٹی، گارمنٹس سٹی ، ایکسپورٹ ، پروسیسنگ زون ایگزی بیشن سنٹرز ، انڈسٹریل زون جیسے اہم منصوبوں کے اعلانات کئے گئے لیکن عملاً ایک بھی منصوبہ شروع نہ کیاگیا ۔13اضلاع کے لیے سابقہ حکومتیں منصوبہ جات کے محض وعدے کرتی رہیں ان پر پیش رفت کوئی بھی نہ ہوسکی موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے فیصل آباد، لاہور ، کراچی میں کپاس سے منسلک صنعتوں کے قیام اور فروغ کے لیے پیکیج اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا ملک کی مجموعی پیداوار کا75فیصد سے زائد حصہ رکھنے والے خطے کی ملتان کاٹن ایسوسی ایشن ( ایم سی اے ) کو روئی کے سپاٹ ریٹ کے اجراءکی اجازت نہیں کاٹن مارکیٹ پر نرخ مقرر کرنے ، کاٹن ریٹ کے اجراءپر کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اجارہ داری ہے اور کے سی اے کے مقرر کردہ ریٹس کا اطلاق پورے ملک کی کاٹن انڈسٹری پر ہوتا ہے ملک میں کپاس کی پروسیسنگ ، پریسنگ اور جیننگ کے مراحل کی تکمیل کے لیے 1200 جیننگ فیکٹریاں کام کررہی ہیں جس میں850جیننگ فیکٹریاں جنوبی پنجاب میں ہیں لیکن جنوبی پنجاب کی ٹیکسٹائل اور جیننگ انڈسٹری کو بجلی اور گیس کی فراہمی سے محروم رکھا جارہا ہے جبکہ اپر پنجاب اور کراچی کی انڈسٹری کو24گھنٹے بجلی فراہم کی جاری ہے ، کراچی، لاہور، فیصل آباد اور اسلام آباد میں جنوبی پنجاب میں تیار ہونے والی مصنوعات دستکاریو ںاور ایمبرائڈری کے ڈسپلے سنڈرز اور ایگزیبیشن سنٹر قائم ہیں جبکہ ہنر مندروں اور دستکاروں کو ان کی تیار کردہ مصنوعات کا معاوضہ نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے خطے میں پیدا ہونے والی کپاس سے اربوں ڈالر سالانہ کی برآمدات کی جارہی ہیں اور کاٹن اکانومی میں سب سے اہم کردار جنوبی پنجاب کا ہے اخبار مزید لکھا ہے کہ سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث خطے میں نئی جیننگ اور ٹیکسٹائل وسپننگ انڈسٹری کا قیام مفقود ہوتا جارہا ہے نئی صنعتوں کا قیام نہ ہونے سے بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پہلے سے موجود صنعتیں بھی بند ہوتی جارہی ہیں جس سے جنوبی پنجاب کے عوام میں احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے ۔
لیہ سے شائع ہونے والے روزنامہ داور نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ سرائیکی صوبہ کا نعرہ پاکستان پیپلزپارٹی نے لگایا لیکن پر عمل درآمد محض اس لیے نہ ہوسکا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پوائنٹ سکورنگ کررہی تھی سید یوسف رضا گیلانی نے بھی یہ آواز اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں بلند کی ۔ اخبار لکھتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے بھی یہی روش اپنائی جس سے ضمنی الیکشن میں اسے اپنی چھوڑی ہوئی نشستوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے سرائیکی وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون اور لاہور کا ہمار ایکڑ رقبے پر مشتمل گارمنٹس سٹی منصوبہ لاہور کے بجائے سرائیکی خطہ میں قائم کیا جاتا کہ کاٹن سٹرائیکی وسیب کی پیداوار ہے عجیب بات ہے کہ کپاس ملک کی مجموعی پیداوار کا85فیصد سرائیکی خطہ پیدا کرتا ہے اور اس کے کارخانے لاہور اور فیصل آباد میں قائم ہیں ، سرائیکی وسیب سے صنعتی ترقی کے حوالے سے بھی امتیازی اور سوتیلی ماں کا سلوک ناقابل برداشت ہے پنجاب کے صنعتی اداروں میں بھی سرائیکی وسیب کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button