ریاض کانفرنس کا بارہواں کھلاڑی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ خلیج کے طویل المیعاد مقاصد کا اندازہ تو شاید ہر گزرتے دن کے ساتھ طویل ہوتا چلا جائے مگر اس دورے کے قلیل المیعاد مقاصد میں سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت کے ایک ایسے معاہدے پر آمادہ کرنا تھا جس کے نتیجے میں اقتصادی بدحالی کی طر ف لڑھکتے ہوئے امریکا میں ہزاروں نئی نوکریاں اور روزگار کے نئے امکانات اور جہان پیدا ہوں گے ۔ اس کے بدلے میں سعودی عرب کو ایران کے مقابلے میں احساس تحفظ حاصل ہوگیا وہ خطرہ جسے پیدا کرنے اور بڑھاوا دینے میں امریکا چند برس قبل پیش پیش تھا، یہ وہ وقت تھا جب امریکا کا جی سنی اسلام سے اچاٹ ہوگیا تھا اوروہ سرد جنگ کے آخری معرکے کے اس کے ساتھی کا ہاتھ چھڑا کر شیعہ اسلام سے دوستی کرنا چاہتا تھا ۔ تب ڈپلومیسی کی کچھ ایسی کھچڑی پک گئی جس کے نتیجے میں عراق میں صدام اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اور ایک نئی انتظامیہ قائم ہوئی اور اس کے زیر اثر نیا ماحول پیدا ہوگیا ۔ عراق میں پکنے والی اس کھچڑی کو جب شام میں استعمال میں لانے کا مرحلہ آن پہنچا تو تعاون کی اس دیگ سے شک کا کچھ ایسا بال برآمد ہوا کہ ایک دوسرے کو بغداد میں راہیں دینے والے ایک دوسرے کے لیے کامیابی کے خاموش امکانات پیدا کرنے والے باہم الجھ پڑے اور یوں مدار بدلتے چلے گئے ، کل کے معتوب تیزی سے محبوب بنتے چلے گئے اب عالم یہ ہے کہ امریکہ ایران کے پیچھے لٹھ لے کر پڑتا نظر آرہا ہے ۔
ٹرمپ نے سعودی عرب سے خالص کاروباری معاہدہ کیا، ایران کو دھمکی اور اسرائیل کو تھپکی دے کر رخصت ہوگئے ۔ سعودی عرب میں اسلحی معاہدوں کے سوا عرب اسلامک امریکن کانفرنس سمیت جو کچھ ہوا محض ٹرمپ کے دورے کو خوش گوار، رنگین اور یادگار بنانے کی سعی تھی تاکہ یہ اندازہ نہ ہو کہ سال بھر پہلے سعودی عرب سے نائن الیون کا تاوان وصول کرنے کی تیاری کرنے والا امریکا اب صرف تجارتی مقاصد کے لیے شاہ سلمان کے آگے دو زانو ہوگیا ۔ یہاں ٹرمپ نے اپنے ہی ظالم اور اپنے ہی مظلوم تراشے ۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کا شکار جن ماڈرن مظلومین کا ذکر کرنا ضروری سمجھا ان میں آسٹریلیا، روس اور بھارت شامل تھے ۔ گویا امریکہ کے علاوہ جو تین ملک مظلوم ہیں دہشت گردی کا شکار ہیں ان میں یہ نام شامل ہیں باقی دنیا تو اس جنگ میں چین کی نیند سو رہی ہے ۔ یا تماشائی بن کر بیٹھی ہے ۔ پاکستان کا نام اس فہرست میں شامل نہ ہوسکا جس نے امریکا کی جنگ میں الجھ کر ستر ہزار جانیں گنوا ڈالیں اور پڑوس کے فلسطینی بھی اس فہرست میں جگہ نہ بنا سکے جو دنیا بھر سے آنے والے آباد کاروں کے ہاتھوں اپنی زمینوں اور باغوں سے بے دخل ہوکر ملکوں ملکوں پھر رہے ہیں جو اپنے گھروں میں ہیں اور ان کی زندگی سے موت بہتر ہے ۔
کشمیری بھی اس فہرست میں شامل نہ ہوسکے جن کے چھوٹے چھوٹے بچے پتھر پھینکنے کے جرم میں یا توجان سے محروم کردیے جاتے ہیں یا بینائی سے۔
ستم بالائے ستم تو یہ کہ عرب، اسلامک امریکن سمٹ کے نام پر ہونے والی کانفرنس میں پچپن ملکوں کے مندوب اور سربراہان شریک تھے ان میں دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی طاقت پاکستان کے نمائندہ اور وزیراعظم میاں نواز شریف بھی شامل تھے ۔ میاں نواز شریف بیجنگ سے اسلام آباد پہنچے تو سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا دعوت نامہ منتظر تھا اور وہ دوسرے روز سعودی عرب چل دیے ۔ واقفان حال نے بتایا کہ وہ راستے میں اپنی تقریر کے نوٹس تیار کرتے اور ریہرسل کرتے رہے ۔ جب کانفرنس شروع ہوئی تو بہت سے ملکوں کے مندوبین کو خطاب کا موقع ملا مگر مسلمان دنیاکی واحد ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہترین فوج کے حامل ملک کے سربراہ کے لیے وقت کی کمی ہوگئی اور انہیں خطاب کی دعوت نہیں دی گئی جب کہ ٹرمپ نے ان سے فقط مصافحہ کیا اور ہاتھ ملاتے ہوئے ایک جملہ کہا جس کا ترجمہ اردو اخبارات نے یہ کیا کہ” آپ سے مل کر خوشی ہوئی “۔ اگر یہ انگریزی کے جملے ”نائس ٹو میٹ یو “کا ترجمہ ہے تو پھر اس میں کوئی گرمجوشی اور معنویت اور گہرائی ہرگز نہیں یہ ہاتھ ملاتے ہوئے بولا جانے والے روایتی جملہ ہے ۔ بھلے سے چہرے ناگواری ہی کیوں نہ ٹپک رہی ہو مگر مغربی ثقافت میں یہ جملہ دہرانا معمول ہے ۔ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے پورے سفر میں بظاہر تو ایران کو تنہا کرنا کہ اشارے دیے عملاً پاکستان کو تنہا کرکے رکھ دیا الٹا یہ کہ پاکستان کو چڑانے کی خاطر بھارت کی مظلومیت کا ذکر بھی کر ڈالا ۔
اسلام آباد کے منصوبہ سازوں کو ان حالات کو پڑھناچاہیے تھا بات تو سچ ہے کہ اگر میاں نواز شریف کو بارہویں کھلاڑی کے طور پر اس کانفرنس میں شریک کرنا تھا تو پھر وہاں نہ جانا ہی بہتر تھا ۔ یوں لگتا ہے کہ امریکا کی بالکل یہ خواہش نہ ہوتی کہ پاکستان اس کانفرنس میں شریک ہو کیوں کہ امریکا کی جنوبی ایشیا کو جانے والی ہر راہ اب بھارت سے ہوکر گزرتی ہے ۔ امریکا جنوبی ایشیا کے معاملات کو بھارت کی عینک سے دیکھ رہا ہے ۔ سعودی عرب نے اس کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی منجمد برف کو پگھلانے کی کوشش کی کیوں کہ سعودی عرب کو پاکستان کے ساتھ چلنے اور ساتھ لے کر چلنے کی عادت سی ہو گئی ہے اور وہ اس بات کا شاید ہی تصور کرسکتے ہیں کہ کسی سفر میں پاکستان ان کا ساتھی اور ہم رکاب نہ ہو ۔ اگر واقعی سعودی عرب نے پاکستان اور امریکا کو قریب لانے کی ایک سعی کی تھی تو یہ بری طرح ناکام ہو گئی اور اب پاکستان اور امریکا کے تعلقات اعتماد اور خوشگواریت کی اس سطح پر پہنچ ہی نہیں سکتے جو سرد جنگ کے زمانے میں تھی ۔ اب دونوںکے مدار ہی نہیں دوستی کے محور ہی بدل چکے ہیں۔ اب خطے میں بھارت امریکا کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے اور پاکستان اس کے ساتھ حالت جنگ میں ہے ۔ اب امریکا اپنے بعد بھارت کو افغانستان کا پولیس مین بنا رہا ہے اور پاکستان اپنے قریب میں بھارت کی اس برہنہ موجودگی سے الرجک اور بیزار ہے ۔
نظریات اور معاملات کی اس خلیج کو سعودی عرب پاٹ سکتا ہے نہ کوئی اور معجزہ ان حالات کو بدل سکتا ہے ۔ یہ دنیا اور علاقائی معاملات پر امریکا اور پاکستان میں پیدا ہونے والے مقوف اور نظریات کا وہ تضاد ہے جو اب تا دیر جاری رہے گا۔ چند دن قبل بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے جو عالمی سرگرمی ہوئی بھارت نے اس کا اعلانیہ بائیکاٹ کیا امریکا نے اس پر ناک بھوں چڑھائے رکھی ۔ کچھ یہی معاملہ ماسکو میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس کا بھی تھا ۔ پاکستان ان دونوں سرگرمیوں میں پُر جوش انداز سے شریک تھا ۔ اس تضاد کو مصنوعی طریقوں سے چھپانا ممکن نہیں رہا ۔ اب پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس تضاد کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرکے آگے بڑھنا ہوگا اور ایسی کسی محفل میں جانے سے پہلے سو بار سوچنا ہوگا ، جہاں قومی عزت نفس مجروح ہونے کاشائبہ ہو ۔ اب امریکا کے ساتھ تعلقات کی یہ یک طرفہ کیفیت ختم ہوجانی چاہیے ۔