تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی :لمحہ فکر!
ہم اس لحاظ سے یقینا بد قسمت قوموں میں شمار ہوتے ہونگے کہ ہم نے کبھی اپنی نوجوان نسل کے لیے نہیں سوچا ، کوئی ایسی پلاننگ نہیں کی جس کی روشنی میں نوجوان، جو ہماری آبادی کا ایک کثیر حصہ ہیں کے لیے کوئی مثبت کام کا آغاز ہوسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری طرح ہماری نوجوان نسل بھی افراتفری اور فرسٹریشن میں مبتلا، آوارہ اور بے یقینی کی سی کیفیت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔ ظلم تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کھیل وتفریح کے میدان یا تو ختم ہوتے جارہے ہیں اور جو کچھ باقی ہیں ان پر قبضہ مافیا نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں نوجوان تفریح اور کھیل جیسی بنیادی ضروریات سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی فرسٹریشن اور ڈپریشن کو دور کرنے کی خاطر غلط راہو ںکے مسافر بنتے جارہے ہیں ۔ گلی ، محلوں ، تعلیمی ادارو ںاور بڑی بڑی محفلوں میں چرس، افیون، شیشہ ، کوکین، شراب اور کرسٹل پاﺅڈر جیسی لعنتیں نوجوانوں کو تیزی سے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں ۔ جس کے نتیجے میں جہاں نوجوانوں کا مستقبل خطرے میں پڑ رہا ہے ، وہاں جرائم میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اپنی فرسٹریشن کو لگام دینے کی خاطر نوجوانوں میں ان لعنتوں کو استعمال کرنے کا فیشن عام ہوچکا ہے اور ان کی دستیابی کے لیے ڈکیتی چوری اور ان جیسے جرائم میں ملوث پڑھے لکھے نوجوانوں کی شرح میں اضافہ ایک افسوسناک امر ہے ۔
قارئین کرام!حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ میں متواتر یہ خبریں شائع ہو ری ہیں کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طالب علموں میں منشیات کا استعمال بڑھتا جارہا ہے ۔ کچھ روز قبل لاہور میں اس سے جڑا ایک ایسا افسوسناک واقعہ رونما ہوا تھا جس میں منشیات کی زیادتی کی وجہ سے ایک نجی یونیورسٹی کا طالب علم موت کے منہ میں چلا گیا تھا ۔ تعلیمی اداروں میں اور ان سے ملحقہ ہاسٹلز میں منشیات فروشی کا دھندہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے ۔ جس میں متعلقہ ادارے کے اساتذہ وملازمین ، محکمہ ایکسائز اور پولیس ملازمین بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا گٹھ جوڑ ہے جو اوپر سے نیچے تک کے لوگوں کی جیبیں گرم رکھ کر معصوم نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔ حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کا دھندہ کرنے والے ایسے گینگ کو گرفتار کیاہے جو کئی سالوں سے23سے30سال تک کے بڑے تعلیمی اداروں کے طلباءکو منشیات فروخت کررہا تھا ۔ گرفتار ملزم نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کا ٹھیکے دار ہے جس کے پاس زیادہ تر نوجوان سٹرپ ( اسٹیسی ) کا نشہ خریدنے آتے ہیں جس کی ایک سٹرپ کی مالیت دو ہزار روپے ہے ۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ شہر اقتدار میں ایسا گھناﺅنا دھندہ ، اقتدار کے مزے لوٹنے والے ارباب اختیار کی مرضی کے بغیر ہوسکتا ہے ؟ اور اگر ہو رہا ہے تو یہ ان کی گڈ گورننس اور نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
ظلم تو یہ ہے کہ ان مافیاز کے ہاتھوں زندگی سے شکست کھانے والے افراد کی موت کے بعد جب حکام بالا کچھ ہوش میں آتے ہیں اور انکوائری کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ، جس کی روشنی میں کچھ ذمہ داران کا تعین ہوتا ہے اور اس کے چند ہی روز بعد پھر سے وہی لمبی خاموشی اور بے حسی ہمارا مقدر ٹھہرتی ہے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اس گھناﺅنے دھندے میں ملوث افراد کو پولیس، مکمل سکیورٹی فراہم کرتی ہے جب کوئی ایماندار افسر اپنے علاقے میں پورے دھڑلے کے ساتھ منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث افرادکے ڈیرے پر چھاپہ مارتا ہے تو ماہانہ پیسے وصول کرنے والے اور روٹیاں کھانے والے نکے تھانیدار پہلے ہی اسے آگاہ کردیتے ہیں ۔ اور یوں وہ صاحب بہادر کے غیض وغضب سے بچ کر ، ایک دفعہ پھر زور وشور کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ لاہور کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پورے زور شور کے ساتھ کھلے عام منشیات کا کاروبار عروج پر ہے جبکہ متعلقہ ایس ایچ او لاکھوں روپے لے کر لمبی تان کر سوئے رہتے ہیں ۔
قارئین کرام!
اگر ہم حقیقی معنوں میں اپنی نوجوان نسل کی بقا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں بطور والدین، اساتذہ ، پولیس افسر، ایکسائز افسر اپنے اندر حب الوطنی اور نوجوان نسل کی بقاءاور اس کی حفاظت کا جذبہ لے کر کام کرنا ہوگا ۔ ہر شخص کو اپنی اپنی جگہ ایمانداری کے ساتھ نوجوانو ںکو تباہی کی جانب لے جانے والے ان عناصرکے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا اور اپنی اپنی جگہ اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایسے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرکے ان کا قلع قمع کرنا ہوگا ۔ اگر تو ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو یقین جانیں کہ پھر ہماری نوجوان نسل کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور اگر خدانخواستہ ہم یونہی حرام خوری کی لت میں مبتلا رہ کر ان مافیاز سے اپنے حصہ وصول کرکے انہیں کھلی چھوٹ دیتے رہے تو کچھ بعید نہیں کہ کل یہ آگ ہمارے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے ، جسکے نتیجے میں ہمارے بچوں کے بلند ہوتے قہقہے اور ہنستے بستے گھر اس کی زد میں آجائیں اور پھر ہمارے پاس حرام خوری سے کمائے ہوئے چند ٹکوں کے علاوہ اور کچھ نہ بچے۔