یوٹرن خان اور کرپٹ حکمران
اپریل 2016 میں تحقیقی صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم نے دس سال کی لگاتار محنت اور تحقیق کے بعد دنیا کے ہزاروں با اثر افراد کی فہرست جاری کی جن کا اربوں روپیہ دنیا کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔ اس فہرست کے منظر عام پہ آنے کے بعد پوری دنیا میں ہنگامہ برپا ہو گیا،ادارے حرکت میں آئے اور احتساب کا آغاز ہوا اور جہاں احتساب میں تاخیر ہوئی وہاں احتجاج ہوا اور احتجاج کے نتیجے میں بااثر حکومتی عہدیداروں نے استعفے د ئیے۔بد قسمتی سے اس فہرست میں پاکستان کے بھی کافی بااثر لوگوں کے نام آئے جن میں سب سے نمایاں نام حکمران خاندان کے افراد کے تھے۔ وقتی طور پرملک میں ہلچل مچی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی ماڈل ٹاو¿ن،نند ی پور اور قصور اسکینڈل کی طرح سرد خانے میں جاتا دکھائی دیا۔اس صورت حال میں پاکستان کے ایک سیاسی رہنماعمران خان نے اس معاملے کی شفاف اور بامعنی تحقیقات تک احتجاج کا فیصلہ کیا اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی جماعتی پالیسی کے مطابق اس احتجاج میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔اکیلے ہونے کے باوجودعمران خان نے اپنے فیصلے پہ قائم رہ کے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس موقع پر بہت سے سیاسی دانشوروں نے عمران کو سولو فلائٹ سے باز رہنے کا مشورہ دیا لیکن وہ اللہ پہ یقین رکھ کے کوشش کرتا رہا اور ہمیشہ کی طرح مثبت نتائج کی امید پہ آگے بڑھتا رہا،یہاں تک کہ ستمبر آن پہنچا اور وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اپنے احتجاج کو لے کے حکمران خاندان کی رہائش گاہ کے قریب رائیونڈ پہنچ گیا۔ اس حد تک جانے کے باوجود بھی احتساب کا کوئی ادارہ حرکت میں نہ آیا تو عمران خان نے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کیا اور ایک ماہ بعد اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کر دیا۔اس اعلان کے بعد ہر جگہ اور ہر وقت یہی موضوع زیر بحث رہا کہ کیا اسلام آباد بند کرنے کا فیصلہ درست ہے؟ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے دانشوروں نے ایک طرف تو دنیا کی ایسی بہت سی مثالوں کو نظرانداز کیا اور دوسری طرف اس ملک کے نااہل وزیراعظم کو بھی اس بات پہ آمادہ کرنے کی کوشش نہ کی کہ وزارت عظمی کا اخلاقی جواز کھونے کے بعد استعفی دے کے خود کو احتساب کے لیے پیش کرے،بلکہ اپوزیشن میں موجود کچھ بےوقوف بھی عمران خان کے اس جائز مطالبے کو غیر آئینی قرار دیتے رہے۔
وقت گزرتا گیا،سپریم کورٹ سمیت تمام ادارے خاموش رہے اور اسلام آباد کی بندش کا وقت قریب آن پہنچا۔ مقررہ تاریخ 2 اکتوبر تھی لیکن حکومت نے حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے 28 اکتوبر کو ہی اسلام آباد راولپنڈی سمیت ملک کے چودہ شہر بند کرنے شروع کر دیے۔
عمران خان بنی گالا میں خود ساختہ محصورہو کر بیٹھے رہے اور شہد کی بلیک لیبل بوتلیں اور تیتر اور بٹیر کی دعوت ہوتی رہی۔ دوسری طرف مختلف شہروں میں گھروں میں گھس کے کارکنان کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسلام آباد آنے والے قافلوں پر بد ترین تشدد اور شیلنگ کی گئی۔ خیبر پختونخواہ کو عارضی طور پر ملک سے کاٹ دیا گیا۔ مختصر یہ کہ شدید دباو¿،پریشانی اور بوکھلاہٹ میں حکومت نے ظلم و بربریت اور بادشاہت کی بد ترین مثال قائم کی۔ ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے سوئی ہوئی ”اعلیٰ عدلیہ“ ایماپئر کی انگلی کے اشارے پر حرکت میں آئی اور اسلام آباد لاک ڈاو¿ن سے ایک دن پہلے ہی کمیشن کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔
مقصد کے حصول کے بعد عمران خان نے یوم احتجاج کو یوم تشکر میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔یہاں یہ سوال میرے ذہن میں بارہا آرہا ہے کہ کیا عمران خان کو کچھ حاصل ہوا، کیا حکومت کا کچھ بگڑا ، مارے جانے والے اورمارنے والے سب غریب عوام ہی ہیں۔ ہمارے عوام سادہ لوح ہیں جس کے پیچھے لگ جائیں کان نہیں دیکھتے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں چاہے وہ پی ٹی آئی کا کارکن ہو یا نواز لیگ کا۔
مجھے اس بات کی حیرت ہوتی ہے کہ اگر عمران خان پچھلے تین سالوں سے عوامی مسائل کی بات کرتے تو شاید آج یوم تشکر وہ نہیں عوام منا رہے ہوتے اور اس کرپٹ ٹولے سے شاید جان چھوٹ جاتی مگر عمران کے گرد بیٹھی گدیں بھی تو اسی ٹولے سے تھیں جن کا حصار بہت گہرا ہے۔
عدلیہ نے کام شروع تو کردیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت میں بیٹھے منصف اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرتے ہیں یا نہیں؟ اور اسی سوال کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گا۔