پاکستان میں صحت عامہ کامعیار:تشویشناک مسئلہ
ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق صحت کی سہولتوں کا فقدان پاکستان میں گھمبیر صورتحال اختیار کرنے لگا ہے ، حکومتی سطح پر قائم ہسپتالوں ، ہیلتھ کئر سینٹرز میں موجود سہولتیں اس معیار کے مطابق نہیں جس پر انہیں ہونا چاہیے ، صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لحاظ سے اموات کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے پاکستان گزشتہ سال147ویں نمبر سے اب149ویں نمبر پر آگیا ہے ، پاکستان ویسے ہی صحت کی سہولتوں میں فقدانی کیفیت کا شکار ہے ، پانی جیسی بنیادی ضرورت عالمی سطح پر جس معیار کی ہوتی ہے اس طرح کا پانی پاکستان کی اکثریتی آبادی کو دستیاب ہی نہیں ہے اور دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں میں کم تجربہ کار ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف، ناقص سہولتوں سے آراستہ بلڈ بینکس اور لیبارٹریز ، وینٹی لیٹرز کی کمی اور دیگر سہولتوں میں کمی اس کی بڑی وجوہ ہیں ۔ بیشتر سرکاری ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر تباہ حالی سے دوچار ہونے سے ملک کی کثیر آبادی جو سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتی ہے ، ناقص سہولتوں کی وجہ سے علاج معالجے میں غفلت کا شکار ہوکر موت کو گلے لگانے پرمجبور ہے ، ملک کے70فی صد عوام سرکری طبی مراکز کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔ اس لحاظ سے انہیں ان طبی مراکز پر سہولتیںبھی میسر ہونی چاہئیں ۔ مگر وفاقی ، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر قائم طبی مراکز میں اکثریت جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سہولتیں فراہم کرنے سے عاری ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستان میں50فیصد افراد بیماریوں پر اٹھنے والے مصارف اور اخراجات کی وجہ سے غربت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ کسی غریب گھر کا کوئی فرد جب کسی مہلک اور جان لیوا مرض کا شکار ہوتا ہے تو اپنے اس پیارے کی صحت کی بحالی اور جان بچانے کے لیے لواحقین اپنی پشتینی جائیدادیں تک فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، بہ صورت دیگر وہ قرض لے کر علاج معالجہ شروع کردیتے ہیں اور یوں پورا خاندان بال بال قرض کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ، کرب ، بے بسی اور بے کسی کے عالم میں زندگی بسر کرتے ہوئے یہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ۔ واضح رہے کہ یکم جنوری2016ءکو وفاقی دارالحکومت میں ہونے والی تقریب میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے اسلام آباد میں قومی صحت پروگرام کا افتتاح کیا تھا ۔ تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بتایا تھا کہ اس پروگرام کا مقصد کم آمدنی والوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہے ، یہ پروگرام23اضلاع میں شروع کیا جائے گا ، ابتداءمیں 15اضلاع میں کارڈ کا اجراءہوگا جن سے32لاکھ خاندان مستفید ہوں گے ۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو امداد فراہم کی جائے گی ۔ اور وہ کسی معاوضے کے بغیر اپنا علاج کراسکیں گے ، اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ جی ڈی پی کا1.5فیصد صحت پرمختص ہے ۔ جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے ۔ حکومت اسے کم از کم پانچ فی صد پر لے جائے تو مناسب چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ملک میں صحت کی سہولتوں میں نمایاں بہتری لا کر مرحلہ وار اموات کی شرح کو کم کرسکتی ہے ۔ ساتھ ہی آلودہ اور مضر صحت پانی کی فراہمی کو صحت بخش پا نی کی فراہمی میں تبدیل کرنے کے لیے اقدامات بروئے کار لا ئے جائیں تو بیماروں اور پھر ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح کو قابل ذکر حد تک کم کیا جاسکتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ صحت کے حوالے سے حکومتی فراہم کردہ سہولیات کو کسی طور پر معیاری اور لائق رشک قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اگر شہری حلقوں میں حفظان صحت کا شعور پیدا ہو جائے اور وہ اپنے جسم اور گھر کی صفائی کو اپنی ترجیح بنالیں تو ہسپتالوں میں20فیصد رش کم ہوسکتا ہے ۔ بیماریوں کے فروغ کی وجوہات میں جہاں گندگی کلیدی کردارادا کرتی ہے وہیں خالص خوراک اور ایک نمبر ادویات کی مارکیٹ میں عدم فراہمی پر بھی شہریوں کو بیماریوں کی کھائی کی طرف دھکیل رہی ہیں ۔ اندریں حالات ہم سمجھتے ہیں کہ بہ حیثیت ترقی پذیر قوم حکمرانوں کو صحت کے شعبے کو چیلنج کے طور پر لینا ہوگا اور شہریو ں کو صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا ۔