کوئٹہ کو لہو لہو کردینے والا قومی سانحہ!!!
پیر کی صبح بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی پر فائرنگ کی گئی، جس سے وہ شدیدزخمی ہو گئے ، انہیں سول ہسپتال کوئٹہ پہنچایا گیا ۔ ان کی حالت دیکھنے کے لیے سینئر وکلاءسمیت بہت سے وکلاءسول ہسپتال پہنچے ۔ وکلاءکے ہسپتال پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ایمرجنسی کے گیٹ کے باہر زور دار بم دھماکہ ہوا جس سے قیامت صغریٰ برپا ہو گئی ۔ اس بم دھماکے کے نتیجے میں70افراد جاں بحق اور 108سے زائد زخمی ہو گئے ۔ جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تعداد وکلاءکی ہے ۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ سول ہسپتال میں زخمیوں کو طبی امداد پہنچانا ممکن نہ تھا ۔ صوبائی حکومت نے کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچایا ۔ بم دھماکے کے بعد ہسپتال کو سیل کردیاگیا ۔ وزیراعظم نواز شریف بھی اسلام آباد میں تمام مصروفیات معطل کرکے کوئٹہ پہنچے ۔ جب کہ آرمی چیف نے کوئٹہ پہنچ کر زخمیوں کی عیادت کی ۔ آرمی چیف نے بلوچستان ہائی کورٹ کا دورہ بھی کیا اور چیف جسٹس بلوچستان ، دیگر ججوں اور سینئر وکلاءسے ملاقات کی اور اس دہشت گردی کے واقعہ پر سخت دکھ اور افسوس کا اظہار کرے ہوئے سکیورٹی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کا یقین دلایا ۔ آرمی چیف نے اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی بلا لیا جس میں سکیورٹی معاملات پر غور وخوض کرکے اہم فیصلے کیے گئے۔واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ دھماکہ خود کش تھا ۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں نے آسان ٹارگٹ کو نشانہ بنایا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے بلوچستان بار ایسوسی کے صدر بلال انور کا سی کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی پھر ہسپتال پہنچنے والے وکلاءکونشانہ بنانے کے لیے خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑالیا ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم دہشت گردوں کے آگے نہیں جھکیں گے ۔ ان کے خلاف آپریشن پوری طاقت سے جاری رہے گا اور ہم اس حملہ کے ذمہ داروں کو جلد از جلد گرفت میں لاکر نشان عبرت بنا دیں گے ۔
دھماکے میں108افراد زخمی ہوئے ۔ جاں بحق ہونے والوں میں بلوچستان بار کے سابق صدر باز محمد کاکڑ بھی شامل ہیں ۔ اس واقعہ میں آج ٹی وی کے کیمرہ مین شہزاد جاں بحق اور دیگر چینلوں کے کیمرہ مین ور کچھ صحافی زخمی ہوئے ۔ حادثہ میں کئی زخمیوں کو دیگر شہروں کے ہسپتالوں میں بھی بھجوادیاگیا ہے ۔ بم دھماکے کے بعد ہسپتالوں میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ لوگ اپنے عزیز واقارب کا پتا کرنے ہسپتالوں میں آرہے ہیں ۔ کوئٹہ شہر اس بم دھماکے کے بعد لہو لہو ہے ۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس حملے میں ”را“ ملوث ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہم پورے بلوچستان میں غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف بھرپور آپریشن کررہے ہیں ۔ اس حملے میں ملوث تمام افراد کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائیں گے ۔ کوئٹہ میں ہوئے بم دھماکے سے ہلاکتوں کی تمام سیاسی رہنماﺅں نے سخت مذمت کی ہے ۔
بلوچستان میں ہونے والا یہ واقعہ بہت بڑا حادثہ ہے جس میں معاشرے کے اہم ترین طبقے کو نشانہ بنایاگیا ہے ۔ وکلاءمعاشرے میں انسانی حقوق کی عمل داری میں اہم کردارادا کرتے ہیں اور لوگوں کو انصاف پہنچنے میں ان کا اہم حصہ ہے ۔ اس واقعہ میں کوئٹہ کے بے شمار اہم اور سینئر وکلاءجاںبحق ہو گئے جو بہت بڑانقصان ہے ۔ یہ بم دھماکہ سکیورٹی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد پورے ملک میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے مگر اس کے باوجود کوئٹہ میں یہ واقعہ ہو گیا ۔ اس میں ہمارے سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر سوال ہے ۔ ہسپتال کے گیٹ پر بم باندھ کر خود کش حملہ آور کا پہنچنا نہایت اہم ہے ۔ اسے ٹریس کیوں نہ کیا جاسکا ۔ اسی طرح انٹیلی جنس اداروں کوبھی اپنی پرفارمنس کا جائزہ لینا ہوگا ۔ نیشنل ایکشن پلان پرزیادہ سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی شدید ضرورت ہے ۔ واقعہ کے بعد یہ اعلیٰ عہدے دار اور سکیورٹی ادارہ متحرک ہے ۔ تمام اداروں کو بروقت چوکنا رہنا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کو روکا جاسکے ، بھارت کشمیر میں اٹھنے والی تحریک سے پریشان ہے اور اس نے اپنے بے شمار ایجنٹ بلوچستان میں داخل کررکھے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ایجنٹوں کو پکڑاجائے تاکہ ہمارے عوام ایسے حادثات سے محفوظ ہوسکیں ۔ یہ حادثہ انٹیلی جنس اداروں اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے ۔بلوچستان بار کے صدر پر فائرنگ کے بعد سکیورٹی اتنی سخت ہوجانی چاہیے تھی کہ کوئی خود کش بمبار شہر میں اس طرح آسانی سے وکلاءکو ہسپتال میں نشانہ نہ بنا سکتا ۔ ہمارے سکیورٹی اورانٹیلی جنس اداروں کو اپنے طریق کار، سیٹ اپ اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے نئے عزم سے مربوط ہونا ہوگا ، تاکہ ہم دشمنوں کے عزائم کوناکام کرسکیں ۔
صحافی جو کہ ویسے ہی پاکستان میں زیر عتاب رہے ہیں اور ہر لسانی شدت پسند تنظیم کا آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں حکومت کو چاہئے کہ صحافیوں کو بھی مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ۔اس کیساتھ ساتھ مجھے بڑے دکھ کے ساتھ بھارتی انتہا پسند صحافیوں کا ذکر کرنا پڑ رہا ہے جو کہ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر اس اندوہناک سانحے کے بعد یہ فرما رہے تھے کہ اس بڑا بدلہ بھارت نہیں لے سکتا اور ساتھ ہنس بھی رہے تھے ۔یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارتی حکومت ہو یا انتہا پسند تنظیمیں ان سب کا ایک ہی خواب ہے کہ پاکستان کو کسی بھی طرح غیر مستحکم کیا جا سکے۔ہماری حکومت ،فوج اور سیکیورٹی اداروں کو اس بات پر توجہ دینی ہو گی کہ ہم کس جگہ کھڑے ہیں اور ہمارا ازلی دشمن ہمیں کس طرح نقصان پہنچا رہا ہے۔